مصطفیٰ عامر قتل کیس میں سندھ ہائیکورٹ نے پراسیکیوشن کی چاروں درخواستیں منظور کرلیں ۔ ٹرائل کورٹ کے 10 اور 11 فروری کے احکامات کالعدم قرار دیدیے گئے ۔ ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دوبارہ اے ٹی سی سے رجوع کی ہدایت کردی۔
ملزم کو جسمانی ریمانڈ کے بجائے جیل بھیجنے سے متعلق حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے۔ دوران سماعت جسٹس ظفرراجپوت نے ریمارکس دیے کہ پورا آرڈر ٹائپ تھا ۔ وائٹو لگا کر جیل کسٹڈی کیا گیا ۔ پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حلف اٹھا کر کہتا ہوں ۔ ملزم کا باپ جج کے کمرے میں موجود تھا ۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا ۔ وہ بات نہ کریں جو آپ نے درخواست میں نہیں لکھی ۔
جسٹس ظفرراجپوت نے کہا ریکارڈ میں پولیس ریمانڈ لکھ کر وائٹو لگایا گیا۔ پراسیکیوٹر جنرل نے کہا حلف اٹھا کر کہتا ہوں جج نے ملزم ارمغان کے والد کو اندر بٹھایا ہوا تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیے وہ بات نہ کریں جو لکھی ہوئی نہ ہو۔
مزید استفسار کیا جب عدالتی ریمانڈ ہوگیا تو پولیس کی ذمہ داری تو ختم ہوگئی۔ آپ ملزم کو جیل کے بجائے دوسری جگہ کیوں لے گئے ۔ سرکاری وکیل نے جواب دیا عدالت کو ملزم سے اسلحہ برآمدگی کا بتایا۔ یہ بھی کہا کہ وہ عادی مجرم ہے۔ اُس کی فائرنگ سے ڈی ایس پی اور کانسٹبل زخمی ہوئے ۔ فاضل جج نے ریمانڈ دینے کے بجائے جیل بھیج دیا ۔ وجہ بھی نہیں بتائی۔
ملزم ارمغان نے عدالت میں بتایا کہ اس پر تشدد کیا گیا۔ اسے پھنسایا جارہا ہے۔ ملزم کی شرٹ اوپر کر کے دکھایا گیاتو کوئی نشان نہیں ملا۔
سماعت کے دوران ملزم ارمغان کے والد نے بولنے کی کوشش کی تو جسٹس ظفر راجپوت نے کامران قریشی کو ڈانٹ دیا، کہا تمہارا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ۔ عدات نے پولیس کی چاروں درخواستیں منظور کرلی۔ جسمانی ریمانڈ کےلیے اے ٹی سی سے رجوع کرنےکاحکم دیا گیا۔