ذرا ایک پرانے نقشے کا تصور کیجیے۔ وہی نقشہ جس کی سرحدیں سرخ روشنائی سے کھینچ دی گئی تھیں، وہ نقشہ جس کے نیچے کسی کا آنگن، کسی کی امیدیں، کسی کا کل اور کسی کا ماضی دب کر رہ گیا تھا۔ یہ محض فلسطین کا نقشہ نہیں، یہ انسانیت کے ضمیر پر کھنچی ہوئی وہ سطریں ہیں، جن پر خون کے چھینٹے ہیں۔ یہی وہ نقشہ ہے جس پر تاریخ اپنے زخموں کی داستان لکھتی آئی ہے۔ یہی وہ چہرہ ہے جس پر ہر دور کی ہوس اپنے دستخط ثبت کرتی رہی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے، جہاں قلم ہمیشہ طاقتور کے ہاتھ میں رہتا ہے، وہاں مظلوم کی فریادیں ہوا میں تحلیل ہوکر رہ جاتی ہیں۔ فلسطین کا نقشہ کھینچتے کے بعد بھی اب تک یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ اور اب اسی نقشے پر ایک نیا مذاق تحریر کر دیا گیا ہے۔ نیتن یاہو مائیک اٹھاتا ہے اور لبوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ سجاکر کہتا ہے۔
"سعودی عرب کو چاہیے کہ اپنی زمین پر فلسطینی ریاست بنادے!"
یہ جملہ سن کر آپ کا دل کیسا محسوس کرتا ہے؟ حیرت؟ غصہ؟ یا پھر وہی پرانی اذیت، جو ہر فلسطینی دل میں ایک تازہ زخم کی طرح جاگ اٹھتی ہے؟ مگر اصل سوال یہ نہیں کہ یاہو نے یہ کیوں کہا؟ سوال یہ ہے کہ اس کے پیچھے کتنی دہائیوں کا سفر ہے؟ کتنے لہو رنگ باب رقم ہوچکے ہیں؟ کتنی چیخوں کی گونج موجود ہے اور کتنے سانحے دفن ہیں؟
یہ کہانی 1948 کے نکبہ سے شروع ہوتی ہے، 1967 کی جنگ سے گزرتی ہے، اور پھر 7 اکتوبر 2023 کے المناک سانحے تک آن پہنچتی ہے۔ یہ کہانی وہی ہے جس میں کاغذ پر لکیریں کھینچنے والے ہاتھ، حقیقت میں زمینیں روند ڈالتے ہیں۔ جہاں قوموں کی تقدیر چند دستخطوں میں بدل دی جاتی ہے۔ جہاں تاریخ طاقتور کی مرضی کے تابع ہو جاتی ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب کا جواب صرف ایک سفارتی بیان نہیں، بلکہ اٹل حقیقت کا ایک بے باک اور دو ٹوک اعلان ہے۔ سعودی وزارتِ خارجہ کا مختصر مگر آتشیں جواب آیا۔
"فلسطینیوں کا وطن، صرف فلسطین ہے!"
یہ محض ایک جملہ نہیں، یہ صدیوں پرانی روایت کا تسلسل ہے، یہ اس تہذیب اور اس سرزمین کا غرور ہے، جہاں کبھی پیغمبروں نے سکھایا تھا کہ ظلم کے آگے جھکنے والا زندہ نہیں رہتا، اور حق پر مرنے والا کبھی مرتا نہیں۔ سعودی عرب نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اس کی خودمختاری ہی اس کی سرخ لکیر ہے، لیکن یہ لکیر کیا صرف جغرافیے کی ہے؟ نہیں! یہ لکیر انسانیت کی توقیر کی لکیر ہے، جو تاریخ کے آئینے میں ہمیشہ نمایاں رہتی ہے۔
غزہ کے کھنڈرات میں آج بھی وہی منظر ہے جو تاریخ بار بار دہرا چکی ہے۔ ایک بچی راکھ میں اپنی گڑیا تلاش کر رہی ہے، مگر اسے کچھ نہیں ملتا، سوائے ایک جوتے کے ادھڑے ہوئے ٹکڑے کے، جس پر خون کے دھبے ہیں۔ وہ ماں سے پوچھتی ہے۔:
"امی، کیا ہماری زمین بھی کوئی ہم سے چھین کر لے جائے گا؟"
ماں کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، اس کی آنکھیں بھیگی ہیں، لب خاموش ہیں۔ وہ جانتی ہے کہ جواب کسی نیتن یاہو کے پاس ہے، کسی ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ہے، جنگ کے کسی اُس سوداگر کے پاس ہے، جو خون کے ہر قطرے کو سونے کے سِکوں میں تولتا ہے۔
نیتن یاہو کہتا ہے، "فلسطینی ریاست خطرناک ہے!" مگر اس نے کبھی اس بچے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا ہے، جس کی پلکوں پر کوئی خوف نہیں؟ وہ بچہ جو کھنڈرات میں بھی زندہ رہنے کا ہنر جانتا ہے، جس کے دل میں سوال تو ہیں، لیکن وہ جانتا ہے کہ یہ سب کچھ عارضی ہے، مگر اس کی مٹی دائمی ہے۔
یہاں ایک اور سوال بھی ہے۔ اس کھیل میں امریکہ کا کردار کیا ہے؟ کیا وہ ثالث ہے یا صرف ایک تماشائی؟ یا شاید وہ درپردہ اس جنگ کا خاموش سرپرست ہے؟ وہی امریکہ، جس کا مجہول صدر فلسطینیوں کو "دوسری زمین" پر بھیجنے کی پخ لگاتا ہے تو اس بیانیے کی گونج یاہو کے الفاظ میں سنائی دینے لگتی ہے۔ تاریخ دیکھتی جا رہی ہے کہ امن کے نام پر کیے گئے وعدے کیسے کاغذی ثابت ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب عرب دنیا ایک بار پھر متحد ہو رہی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر سب نے یک زبان ہو کر یاہو کی دماغی گندگی کو ٹھکرا دیا ہے۔ یہ کوئی عام سفارتی بیان نہیں، بلکہ ایک نئی صبح کی دستک ہے۔ مگر سوال پھر بھی باقی ہے۔
کیا یہ اتحاد محض الفاظ کا کھیل ہے یا واقعی سرزمین عرب پر کوئی نیا باب لکھے جانے کا وقت آ رہا ہے؟ کیا وہ وقت آن پہنچا ہے جب ہر عرب ملک فلسطین کے حق میں ایک عملی اقدام اٹھائے گا؟ لیکن یاد رہے کہ فلسطینیوں کو کسی کا ارضی عطیہ نہیں چاہیے۔ انہیں صرف اپنی زمین چاہیے، وہی زمین جو ان کے آبا و اجداد کی تھی، وہی مٹی جو ان کے لہو کی وارث ہے۔
تاریخ کا اصول ہے کہ کوئی طاقت ہمیشہ نہیں ٹکتی۔ رومن سلطنت ہو یا برطانوی سامراج، سب کا انجام مٹی میں دفن ہونا تھا۔ مگر فلسطین؟ فلسطین زندہ ہے۔ اس کے زیتون کے درخت زندہ ہیں، اس کے بچے زندہ ہیں، اس کی اذانیں، اس کی محرابیں، اس کے گنبد، اس کے کوچے، سب زندہ ہیں۔ ظلم کا قلعہ ہمیشہ باقی نہیں رہتا، جبر کی دیواریں ہمیشہ گرتی ہیں، مگر قوموں کا عزم پہاڑوں سے زیادہ بلند ہوتا ہے۔
آج بھی غزہ کے کھنڈرات میں نوجوانوں کے ہاتھ میں کتاب موجود ہے۔ وہ راکھ میں بیٹھ کر بھی پرسکون انداز میں پڑھتے ہیں، وہ بموں کی گونج میں بھی بے تکان لکھتے ہیں، اور اُس دن کا خواب دیکھتے ہیں، جب وہ اپنے اجڑے گھر کی چابیاں اٹھائیں گے اور کہیں گے۔
"یہ میرا گھر ہے، یہ میری زمین ہے!"
یہ نوجوان نیتن یاہو سے زیادہ طاقتور ہیں، کیونکہ ان کے پاس سب سے بڑا ہتھیار ہے، سچائی کا ہتھیار۔ وہ اُس صبح کا انتظار کر رہے ہیں، جب ان کے شہروں میں بارود کی جگہ تربوز اُگیں گے، جب فلسطین کی صبحیں زیتوں سے مہکیں گی، جب اسکول دوبارہ کھلیں گے، جب فلسطینی بچی اپنی گڑیا کو گلے لگا کر کہے گی۔
"پریشان نہ ہو، اب ہم محفوظ ہیں!"
یہ محض ایک خواب نہیں، یہ ایک وعدہ ہے۔ تاریخ کا وعدہ، زمین کا وعدہ، انسانیت کا وعدہ۔ جو قومیں اپنی زمین کے لیے مرتی ہیں، وہ ہمیشہ جیتتی ہیں اور فلسطین کیلئے بھی ایک دن یہ ضرور ہوکر رہے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت کے نشے میں جھومنے والے ہمیشہ خاک کا رزق بنتے ہیں کیونکہ ہر نمرود کا ایک انجام ہوتا ہے، ہر فرعون کے لیے ایک دریائے نیل بہتا ہے، اور ہر جابر کے لیے زمین کے نیچے ایک ایسی تاریخ دفن ہوتی ہے، جو اس کے وجود کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیتی ہے۔ بالفرض اگر ایسا نہ ہوا تو بھی تاریخ کا ہر صفحہ ظالم کے ماتھے پر بدنصیبی کی مہر ثبت کردے گا، اور مظلوم ہمیشہ کے لیے ہیرو بن جائے گا۔ یہی تاریخ کا فیصلہ ہے، یہی وقت کا دستور ہے۔