وفاقی حکومت نے ملکی گندم کی مارکیٹنگ کے نظام میں اپنی مداخلت روکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہر سال کم از کم امدادی قیمت کے روایتی اعلان کو ختم کردیا۔
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے سیکریٹری نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ کو بتایا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کے مطابق اس سال گندم کی کم از کم سپورٹ پرائس نہیں ہوگی۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ رواں سال کے لیے کافی گندم دستیاب ہے اور کسی درآمد کی ضرورت نہیں ہوگی، جبکہ صوبوں یا اضلاع کے درمیان گندم کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے، حکومت نجی شعبے کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہے کہ کسانوں کو کمرشل بینکوں کے ذریعے ذخیرہ کرنے کی سہولیات دستیاب ہوں۔
گندم کے مارکیٹنگ نظام میں حکومتی مداخلت کا بظاہر مقصد مقامی قیمت کو درآمدی برابری قیمت سے کم رکھ کر صارفین کے مفادات کا تحفظ کرنا اور قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو کم کرکے اور امدادی قیمت کی ضمانت دے کر کسانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کے لیے سبسڈیز کی معطلی کے حوالے سے سیکریٹری نے تصدیق کی کہ سبسڈیز بند نہیں کی گئی ہیں اور وزارت شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے سسٹم کو ڈیجیٹل کرنے پر کام کر رہی ہے۔
کمیٹی کو پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کے سینئر حکام نے بتایا کہ چاول کی 8 نئی اقسام تیار کی گئی ہیں جن کی پیداوار 90 سے 100 من فی ایکڑ ہے اور یہ برآمد کے لیے موذوں ہیں۔
گنے کی پیداواری صلاحیت بھی اجلاس میں زیر بحث آئی اور کمیٹی نے کافی مالی سرمایہ کاری کے باوجود پیداوار میں صرف 620 سے 720 من فی ایکڑ اضافہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے سوال کیا کہ جدید اقدامات اور اعلیٰ بجٹ کے منصوبوں کے باوجود پیداوار کیوں کم ہے، خاص طور پر گزشتہ 12 سالوں سے گنے کی اقسام 2 ہزار 600 من فی ایکڑ تک پیداوار دے رہی ہیں۔