سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ عوام 20، 20 سال کیس چلنے سے تنگ آگئے ہیں اور مصالحتی نظام اپنانا اب لازم ہو چکا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار کے زیر اہتمام مصالحتی نظام سے متعلق کانفرنس سے ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا کہ مصالحت کے نئے قانون کے بعد عدالتیں ایک سائیڈ پر چلی جائیں گی اور اب لوگوں کو بتائیں کہ مصالحتی نظام ان کے مسائل کا حل ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ 2023 میں پورے پاکستان میں 17 لاکھ کیسز کا فیصلہ کیا گیا لیکن ہمارے کیسز آج بھی ویسے ہی پڑے ہیں ہمیں سائلین کے لیے راستہ نکالنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے متبادل طریقے اپنانے پڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ججز کی تعداد کم ہے اور عدالتی نظام کے اپنے مسائل ہیں جبکہ زیادہ تر مسائل وکلا اور ہماری وجہ سے بھی ہیں اس لیے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ہڑتال سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے مقدمات لٹک جاتے ہیں ہمیں پرانا کلچر چھوڑنا پڑے گا ، اہم مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے کیونکہ دیگر کیسز کی بھرمار ہے ، اب سوچنا یہ ہے کہ صرف ایک ہی عدالت کا دروازہ نہیں، ثالثی اور مصالحتی نظام کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سائل کے پاس حق ہو کہ پہلے مصالحتی طریقہ اپنائے ، عدالتی اور مصالحتی نظام میں بہت بڑا فرق ہے ، مصالحتی نظام میں فیس کم ہو گی اور لوگوں کے مسائل زیادہ حل ہوں گے ، اس نظام سے وکلا کے لیے معاشی مسائل پیدا نہیں ہوں گے ، اس نظام کے تحت ایک ہی دن میں کیسز کے فیصلے ہو سکتے ہیں۔