سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیخلاف دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں شہریوں کا ٹرائل غیر مؤثر قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنادیا۔ عدالت نے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل متفقہ طور پر کالعدم قرار دے دیا ہے تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی ون کو آئین سے متصادم 4 ججز نے قرار دیا ہے جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس سے اختلاف کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے سیکشن 2 ڈی ون کو غیرآئینی قرارد ے دیتے ہوئے قرار دیا کہ 9 مئی کے103 ملزمان کا ٹرائل کرمنل کورٹ میں ہی چل سکتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی شہری کا فوجی عدالت میں ٹرائل شروع ہوگیا ہے تو وہ بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں5 رکنی لارجربینچ نے کی، بینچ میں جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
اس سے قبل دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 2015 کے ملزمان کا کیا اسٹیٹس تھا؟ وہ شہری تھے یا کالعدم تنظیموں کے ممبران؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ان ملزمان میں شہری بھی تھے اور کالعدم تنظیموں کے ممبران بھی۔ ممنوعہ علاقوں اور عمارات پر حملے کا مقدمہ بھی فوجی عدالتوں میں چل سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کیا دہشتگردوں کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی۔ شہریوں کے لیے نہیں؟۔اٹارنی جنرل بولے ملزمان کا ڈائریکٹ تعلق ہوتو کسی ترمیم کی ضرورت نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے اندر ڈسپلن کی بات کرتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا آپ اس قانون کا تعلق سویلین سے کیسے دکھائیں گے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا آرمی ایکٹ افسران کو اپنے فرائض سرانجام دینے کا بھی کہتا ہے۔ کسی کو ڈیوٹی سے روکنا بھی قانون میں جرم بن جاتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے اگر یہ تشریح مان لی جائے تو آپ کسی پر بھی یہ قانون لاگو کردینگے۔ ایسے میں بنیادی حقوق کا کیا ہوگا۔
اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ عدالت تسلیم کرچکی کہ ملٹری کورٹس آرمی ایکٹ کے تحت قائم عدالتیں ہیں، ملٹری کورٹس آئین کے ارٹیکل 175 کے تحت قائم عدالتیں نہیں ہیں، ملزمان پر تو قانونی شہادت کا اطلاق بھی کیا جا رہا ہے۔ فوجی عدالتوں میں ان ملزمان کا فیئر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہو رہا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ گزارش ہے کہ عدالت سیکشن 2 ون ڈی کو وسیع تناظر میں دیکھے، عدالت نے اٹارنی جنرل کو تحریری دلائل جمع کرانے کی بھی اجازت دے دی۔