ایک دو روز قبل ہی بانی پی ٹی آئی کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ مجھے کسی کے این آر او کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی میں اس کا طلب گار ہوں۔ اس قبل بھی انہوں نے کچھ اسی طرح کے دعوے کر رکھے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اب ایک بار پھر این آر او پر یوٹرن سامنے آیا ہے اور پی ٹی آئی کی جانب سے حکومتی مذاکراتی ٹیم کو جو مطالبات تحریری شکل میں پیش کئے گئے ہیں ان میں اس کے این آر او نہ لینے کے دعوئوں کی نفی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ مطالبات میں واضح طور پر یہ تاثر دکھائی دیتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی این آر او مانگ رہے ہیں۔
16جنوری 2025ء کوحکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور میں پی ٹی آئی کی جانب سے جو مطالبات پیش کئے گئے اس میں پہلا مطالبہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا جبکہ دوسرا مطالبہ تمام سیاسی قیدیوں کیلئے قانونی مدد یعنی ان کے ریلیف مانگا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی نے 9 مئی 2023 کو بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری اور احتجاجی مظاہروں کی تحقیقات کے لیے شفاف عدالتی کمیشن چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کے ججز کی سربراہی میں تشکیل دینے کا کہا ہے۔ مزید برآں، پارٹی نے 9 مئی کے مظاہروں اور نومبر 2024 کے احتجاج سے متعلق گرفتار افراد کے لیے قانونی امداد اور منصفانہ عدالتی عمل کی درخواست کی ہے۔ گزشتہ دنوں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم اور مینڈیٹ کی واپسی جیسے مطالبات سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ ٹھیک ہے تاہم یہ عدالتی کمیشن صرف 9 مئی یا 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات نہ کرے بلکہ اس کا دائرہ کار 2014ء کے دھرنوں سے شروع کیا جائے اور 26 نومبر 2024ء تک پی ٹی آئی کی جانب سے جتنے بھی جلسے جلوس، دھرنے اور لانگ مارچ کئے گئے ہیں ان کی تحقیقات بھی یہ جوڈیشل کمیشن کرے تو پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ جہاں تک بات ہے سیاسی قیدیوں کی رہائی کی جس میں ایک اشارہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی جانب جاتا ہے تو ان تمام کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے رہائی ممکن ہوسکے سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی حکومت سے یہ توقع کر رہی ہے کہ وہ عدالتی نظام پر اثر انداز ہو کر یہ سب کچھ کرے۔۔۔؟
بات یہ ہے کہ ایک جانب پی ٹی آئی مطالبات پیش کررہی ہے اور مذاکراتی عمل کے ذریعے ریلیف کی کوششوں میں مصروف ہے اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی جا رہی ہے کہ اگر عدالتی کمیشن تشکیل نہ دیا گیا تو پھر مذاکرات ختم بھی ہوسکتے ہیں۔ ان سے سوال کیا جائے کہ کیا مذاکرات حکومت کی مجبوری ہیں یا پی ٹی آئی کی مجبوری ہے۔۔۔؟ ساتھ ہی پی ٹی آئی کی جانب سے مطالبات کی منظوری کیلئے 7 روز کی ڈیڈ لائن بھی دی ہے۔ کیا دھونس سے حکومت یا ریاست کو مطالبات کی منظوری کیلئے مجبور کیا جاسکتا ہے۔۔۔؟
اگر پی ٹی آئی کی جانب سے پیش کئے جانے والے مطالبات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر نظر آئے گا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے 9 مئی کے واقعات اور بانی کی گرفتاری کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشنز کا مطالبہ ان کی اپنی ذات کو بچانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ یہ مطالبہ یہ ثابت کر رہا ہے کہ اب بانی پی ٹی آئی جیل سے تنگ آچکا ہے ہر حربہ آزمانے کے بعد ناکام ہو چکا ہے ۔
پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے ذریعے این آر او جیسی رعایتیں طلب کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا بیانیہ محض عوام کو گمراہ کرنے کے لیے تھا۔حقیقت یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت کو واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ریاست کسی طرح بھی کسی کی بلیک میلنگ میں آنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ریاست پر اعتماد طریقے سے اگے بڑھ رہی ہے ۔ دوسری جانب یہ بھی واضح ہے کہ سائفر سے لیکر 26 نومبر تک بانی پی ٹی آئی تمام کارڈ کھیل چکا ہے اور اب وہ خود کو بند گلی میں پہنچا چکا ہے اور اس سے باہر نکلنے کا واحد راستہ ریاست کی بات کو ماننا ہے۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے بانی کو واضح طور پر پیغام دیدیا ہے کہ ریاست کسی کے سامنے جھکنے کیلئے تیار نہیں ہے اگر ہمیں ریلیف لینا ہے تو اس کیلئے ہمیں جھکنا ہوگا اور یہ بات بانی پی ٹی آئی کو شاید سمجھ آ رہی ہے۔