معروف صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) عمران خان کی اقتدار میں واپسی کا راستہ کٹھن ہے اور اس میں ابھی بہت سے ’ اگر مگر ‘ موجود ہیں۔
سماء کے پروگرام ’ ندیم ملک لائیو ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ نگار ماجد نظامی نے ملکی سیاسی صورتحال کے حوالے سے اہم گفتگو کی اور پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطوں پر بھی اظہار خیال کیا۔
واضح رہے کہ پیر کے روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کا دورہ کیا جہاں انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کی اور اس موقع پر ان کی چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سے بھی ملاقات ہوئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے اس ملاقات کی تردید کی گئی تھی تاہم جمعرات کے روز انہوں نے آرمی چیف سے ملنے کا اعتراف کیا اور اس حوالے سے بانی پی ٹی آئی کا اہم بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے ملاقات کو ’ خوش آئند ‘ قرار دیا۔
بیرسٹر گوہر نے اس حوالے سے کہا کہ ’ میری اور علی امین گنڈا پور کی ملاقات آرمی چیف سےعلیحدگی میں ہوئی جس میں ہم نے اپنے تمام مسائل آرمی چیف کے سامنے رکھے جبکہ ملاقات میں دوسری طرف سے بھی مثبت جواب ملا ہے‘۔
پروگرام کے دوران میزبان ندیم ملک کی جانب سے سوال کیا گیا کہ ’ سیاسی اعتبار سے دیکھیں تو مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) دونوں ہی اس صورتحال سے پریشان ہوں گی چونکہ مسلم لیگ نواز مرکزی حکومت میں ہے تو اس پر زیادہ دباؤ آسکتا ہے تو کیا وہ اس پوزیشن میں ہے کہ اس پیشرفت کو روک سکے ؟۔
سوال کے جواب میں تجزیہ نگار ماجد نظامی نے شاعر احمد سلیم رفی کا شعر ’ ایک دستک پر وہ دروازہ نہیں کھولے گا، اسے معلوم جو ہے میں نے کھڑے رہنا ہے ‘ سناتے ہوئے کہا کہ ’بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور کے ذریعے تحریک انصاف جو دستک دے رہی تھی وہ اب تھوڑا سا کام میں آنا شروع ہوگئی ہے اور ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ( ن ) اس پوزیشن میں نہیں ہے‘۔
انکا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم شہباز شریف کی جو حیثیت یا ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو کوآرڈینیشن ہے اس میں ہم وہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ کوئی احتجاج کی صدا بلند کریں گے اور میرا خیال ہے کہ وہ ایک بار پھر سے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں قربانی دینے کا جذبہ رکھتے ہیں ‘۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ مجھے لگتا ہے کہ یہ پراسیس آگے بڑھے گا، اور مسلم لیگ ن کا جو مزاحمتی گروپ ہے وہ اس پر آواز بلند کرے گا اور ہوسکتا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے جھنڈے تلے کھڑے ہونے کی کوشش کریں ‘۔
عمران خان کی اقتدار میں واپسی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’ ان کی اقتدار میں واپسی کا راستہ کٹھن ہے اور اس میں ابھی بہت سے ’ اگر مگر ‘ موجود ہیں ‘۔