انتشاری جماعت پی ٹی آئی اور اس کے بانی کی نااہلی کا اندازہ ان کے خیبرپختونخوا میں طرز حکومت اور وہاں کے انفرااسٹرکچر کی بدحالی اور عوام کی ناگفتہ بہ حالت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، پی ٹی آئی گزشتہ 10 سال سے خیبرپختونخوا میں برسراقتدار ہے اور اس دوران یہاں پر سوائے کرپشن اور لوٹ مار کے اور کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر سب اچھا کی خبر دیکر خود کو بہترین جماعت ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ سوشل میڈیا پر خیبرپختونخوا کی ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے جو کچھ بیان کیا جارہا ہے وہ حقائق کے برعکس اور جھوٹ پر مبنی بیانیہ ہے۔
رواں سال ستمبر میں خیبرپختونخوا میں ہونے والی مالی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کے بارے میں تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2800 ارب روپے کی سنگین مالی بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 1885 ارب روپے کا نقصان بھرتیوں میں ہوئی بے قاعدگیوں کی وجہ سے ہوا، اسی طرح ٹیکس، ڈیوٹی، خریداری اور خدمات کے شعبے میں 283 ارب روپے کی بے قاعدگیاں ہوئیں، مختلف محکموں جیسے خیبر پختونخوا ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی، محکمہ کھیل، سیاحت، محکمہ صحت اور دیگر میں مالی بے قاعدگیاں رپورٹ ہوئیں، جن میں قومی خزانے کو کروڑوں روپے کے نقصانات ہوئے۔
خیبرپختونخوا کی حالیہ آڈٹ رپورٹ میں بھی صوبے میں دھوکہ دہی، بدانتظامی اور بے قاعدگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں عوامی خزانے کو 152 ارب 10 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ رپورٹ کے مطابق 13 کروڑ 29 لاکھ روپے کی فراڈ ادائیگیاں کی گئیں۔ اسی طرح 51 کروڑ 46 لاکھ روپے کی مشکوک اور دھوکہ دہی کی ادائیگیاں بھی رپورٹ میں سامنے آئی ہیں جبکہ 84 ارب 83 کروڑ روپے کے معاملات میں ترقیاتی اخراجات کی غلط درجہ بندی کی گئی اور ساتھ ہی 42 ارب روپے سے زائد ریکوری کی نشاندہی کی گئی، 80 لاکھ روپے سے زائد کی گاڑیوں کی گمشدگی اور غلط استعمال کا نوٹس لیا گیا، 3 ارب 52 کروڑ روپے کی ادائیگیاں غیرقانونی طور پر رکھی گئیں اور 28 ارب روپے اضافی طور پر ادا کیے گئے، 10 ارب روپے پنشن فنڈ انویسٹمنٹ اکاؤنٹ سے غلط طریقے سے منتقل کیے گئے اور 14 ارب روپے کی بے قاعدہ ادائیگیاں کی گئیں۔
کرپشن کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع تورغر میں 6 ماہ کے دوران 3 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے، جو شاہراہوں کی تعمیر کے منصوبوں میں کی گئی، تورغر کے ضلع میں ڈی ایچ او پر 5 کروڑ روپے کی کرپشن کا الزام ہے لیکن تحقیقات کیلئے دی گئی درخواست کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ کرپشن کرنے والوں کے ساتھ مفاہمت کی گئی۔
خیبرپختونخوا حکومت کی نالائقی کا یہ عالم رہا کہ ترقیاتی بجٹ میں 83 ارب روپے کا غیر ضروری خرچ کیا گیا اور دیگر مالی تخمینوں میں غلطیاں کی گئیں جس سے خزانے کو نقصان پہنچا، اسی طرح دیگر محکموں جیسے محکمہ زراعت، محکمہ مواصلات، محکمہ توانائی اور محکمہ تعلیم میں بھی سنگین بے قاعدگیاں سامنے آئیں۔
پی ٹی آئی کی کرپشن کا حال یہ ہے کہ سب سے اہم شعبے صحت کو بھی نہیں چھوڑا گیا، رواں سال ہی ستمبر میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کے مطابق نوشہرہ کے قاضی میڈیکل کمپلیکس میں پی ٹی آئی دور حکومت میں ہونے والی کرپشن اور بے ضابطگیوں کو اجاگر کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن نے قاضی میڈیکل کمپلیکس میں غیرقانونی بھرتیوں کے حوالے سے ایک نوٹس بھیجا تھا، محکمے نے اس کے باوجود ڈاکٹر نورالایمان کو دوبارہ بورڈ آف گورنس کا چیئرمین تعینات کردیا، ڈاکٹر نورالایمان 2021ء میں بھی چیئرمین تھے اور ان پر غیرقانونی بھرتیوں کا الزام تھا، اسی پر محکمہ اینٹی کرپشن نے بھی نوٹس جاری کیا تھا۔
دستاویزات کے مطابق ڈاکٹر نورالایمان نے غیرقانونی طور پر 50 ملازمین کو بھرتی کیا، جن میں کمپلیکس کے ڈائریکٹر، بایو میڈیکل انجینئر، ایڈمن آفیسر، پی آر او، سینئر کلرک شامل ہیں۔
اگر پی ٹی آئی خیبرپختونخوا حکومت کے گزشتہ 10 سالہ اقتدار کے دوران قرضوں کی صورتحال دیکھی جائے تو ہوشربا اعدادو شمار سامنے آتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت نے 2013ء سے 2021ء تک بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ معاہدے کیے جس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا 2030ء تک 2555 ارب روپے کے قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے گا، صوبے کو 2555 ارب روپے کے قرض پر 355 ارب روپے سالانہ سود کی مد میں ادا کرنا پڑیں گے، جو کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے بجٹ کے برابر ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا 632 ارب روپے کا مقروض ہے، اور 2024ء کے آخر تک یہ قرضہ 725 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ 2025ء میں 215 ارب روپے کا قرض لیا جائے گا، 2026ء میں 284 ارب روپے کا قرض لیا جائے گا، جس کے بعد قرضوں کا مجموعہ 1,224 ارب روپے تک پہنچ جائے گا، 2027ء میں 353 ارب اور 2028ء میں 455 ارب روپے قرض لینے کا منصوبہ ہے، 2029ء میں 346 ارب اور 2030ء میں 177 ارب روپے کا قرض لیا جائے گا، جس کے بعد صوبے کا مجموعی قرض 2555 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔
خیبرپختونخوا میں مالی بدعنوانیوں اور ان کے وزراء کی جانب سے کرپشن کی وجہ سے سب سے اہم شعبہ تعلیم بھی بری طرح متاثر ہے، جس کا مالی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کی 34 جامعات شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ ان جامعات کا مجموعی خسارہ 15 ارب روپے سے زائد ہے جبکہ اخراجات 34 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں اور آمدن صرف 18 ارب روپے ہے، جس کی وجہ سے ان میں مالی خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ 150 فیصد پنشن اور 200 فیصد تنخواہوں میں اضافے کی وجہ سے جامعات کے اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس سے آمدن اور اخراجات میں بڑا فرق پیدا ہوگیا ہے۔ 2018ء سے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات کیلئے سالانہ 9 ارب 4 کروڑ روپے کا گرانٹ منجمد کردیا ہے، جس کے نتیجے میں جامعات کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ 2024-23ء میں صوبائی حکومت نے جامعات کیلئے ایک ارب 9 کروڑ روپے کی گرانٹ این ایڈ جاری کی، مگر جامعات کو پنشن کی واجبات کی ادائیگی کیلئے اب بھی 13 ارب روپے درکار ہیں۔
ایک جانب خیبرپختونخوا حکومت کے کرپشن میں ہاتھ رنگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب ان کی طرف سے عوامی وسائل کو اپنے احتجاج کیلئے وفاق اور دیگر صوبوں پر یلغار کیلئے بے دریغ استعمال کرنا بھی سامنے آیا ہے، جس میں ریسکیو 1122 کی گاڑیوں کو سیاسی احتجاج کیلئے استعمال کرنا ثابت بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ایک چھوٹی سی فیکٹری میں بھی آتشزدگی ہو جاتی ہے تو یہ نالائق حکومت اسے تین روز تک بجھا نہیں پاتی، خیبر پختونخوا کی حکومت نے 24 نومبر کو ہونے والے احتجاج کیلئے ریسکیو 1122 کی گاڑیوں کو پی ٹی آئی کے قافلوں کے ساتھ بھیجا تھا، یہ اقدام صوبائی حکومت کی انتظامی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے اور حکومتی پالیسیوں پر سوالات اٹھاتا ہے۔
ایک جانب صوبہ خیبرپختونخوا میں مالی کرپشن اور بدعنوانیاں عروج پر ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے اکثر محکموں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے آبائی ضلع ڈی آئی خان اور وزیر برائے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے آبائی ضلع بنوں میں جاری ترقیاتی اسکیموں کی لاگت میں اضافہ کرنے کیلئے سیاسی دبا ؤ ڈالا گیا۔
پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی جانب سے پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ کو سمری ارسال کی گئی ہے، جس میں دو منصوبوں کی لاگت 600 فیصد تک بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے۔ 2020ء میں منظور شدہ ڈی آئی خان کے سینٹیشن اینڈ سیوریج سروس منصوبے کی کل لاگت 29 کروڑ 40 لاکھ روپے تھی، سیاسی دباؤ کے تحت اس منصوبے کی لاگت کو بڑھا کر 2 ارب 11 کروڑ روپے کرنے کی سمری ارسال کی گئی، بنوں میں واٹر سپلائی اینڈ سنیٹیشن اسکیم کی لاگت 10 کروڑ روپے تھی، لیکن اب اسے بڑھا کر 2 ارب 60 کروڑ روپے کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، منصوبے میں ٹیوب ویل کی تعداد 10 سے بڑھا کر 300 تک کرنے کی تجویز دی گئی ہے، پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ نے دونوں سمریوں پر اعتراضات لگا کر انہیں واپس بھیج دیا تھا۔