دراصل خودکشی کا ارتکاب کرنے والے لوگ ڈپریشن یعنی شدید ذہنی تناؤ کے باعث ایسا انتہائی قدم اٹھاتے ہیں۔
انسانی خواہشات کا تعلق زندگی اور اس کی روانی سے ہے اسی طرح ہار جیت، کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ہیں لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پے در پے ناکامیوں اورپریشانیوں سے انسان مایوس ہوجاتا ہے۔ زندگی سے اس کی عدم دلچسپی اور بیزاری بڑھ جاتی ہے، اسے مسائل کا کوئی حل نظرنہیں آتا تووہ زندگی کی تلخیوں سے تنگ آکرموت کو گلے لگانے کا فیصلہ کرتا ہے جسے خودکشی کہتے ہیں یعنی“اپنی جان لینا“۔
جب ذہنی تناؤ اس قدر بڑھ جائے کہ انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہوجائے تو وہ اپنے تمام مسائل، الام اور پریشانیوں سے نجات پانے کا راستہ خود کشی کی صورت میں تلاش کرتا ہے۔
ذہنی دباؤ،ایک ذہنی بیماری ہے جو کسی بھی جسمانی بیماری سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور خطرناک ہوسکتی ہے کیونکہ اس میں مبتلا شخص خود اپنا ہی دشمن بن بیٹھتا ہے۔
ڈپریشن کی علامات بھوک نہ لگنا یا بہت زیادہ کھانا، وزن تیزی سے گرنا یا تیزی سے بڑھنا، نیند نہ آنا، الگ تھلگ رہنا، معالات زندگی میں عدم دلچسپی، چڑچڑاپن، جلد غصے میں آجانا، مایوسی طاری رہنا، ناامیدی کی باتیں کرنا، جلد اکتاہٹ اور بیزاری محسوس کرنا، توجہ مرکوزنہ رہنا وغیرہ ہیں۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر رافعہ رفیق نے خود کشی کے مختلف پہلوؤں اور اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا
مردوں کے مقابلے میں خواتین ذہنی دباؤ کاشکارزیادہ ہوتی ہیں جن میں اکثریت متوسط طبقے کی کم پڑھی لکھی گھریلوخواتین کی ہے جبکہ ورکنگ ویمن میں ذہنی دباؤ کا رجحان نسبتاً کم دیکھنے میں آتا ہے کیونکہ انسانی ذہن جس قدر تعمیری اور با مقصد سرگرمیوں میں مشغول رہتا ہے، ذہنی و نفسیاتی مسائل کم ہوتے ہیں۔
ویسے بھی ہمارے معاشرتی نظام میں متوسط طبقے کی کم پڑھی لکھی خواتین کو اظہارِ رائے کی آزادی نہیں دی جاتی، مختلف معاملاتِ زندگی میں انہیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اوربے وقعتی کا احساس دلایا جاتا ہے جو گھریلو خواتین کے لئے ذہنی دباؤکے اہم اسباب ہیں۔
ذہنی دباؤ کی اور بھی کئی وجوہات ہیں مثلاً ہارمونل تبدیلیاں، مالی ومعاشی مسائل، پسند کی شادی نہ ہونا، پڑھائی کا بوجھ، زندگی میں کوئی بہت بڑا یا غیرمتوقع حادثہ اور گھریلو ناچاقی وغیرہ۔
ذہنی دباؤ کے تین مختلف درجے ہیں، مائلڈ (Mild) ماڈریٹ (Moderate) اور سویئر(Severe)۔ ذہنی دباؤ کے باعث خودکشی کا امکان ایک فیصد بڑھ جاتا ہے۔کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو اکثرخود کشی کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں مگر کبھی خود کشی نہیں کرتے جبکہ کچھ ایسے ہیں جو خودکشی کی منصوبہ بندی میں زیادہ وقت صرف نہیں کرتے بس کر گزرتے ہیں اور یہ ذہنی دباؤ کے انتہائی درجے پر پہنچے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔
خود کشی کا خیال کب آتا ہے؟
ذہنی اورنفسیاتی مسائل کے حوالے سے مختلف تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اگر کسی کے والدین میں سے کوئی 10برس کی عمر سے پہلے یا پھر ٹین ایج میں اس دنیا سے رخصت ہوجائے یا والدین میں علیحدگی ہوجائے تو ا س صورت میں پیش آنے والی مالی مشکلات اور لوگوں کے رویے اکثر لوگوں کو دلبرداشتہ کر دیتے ہیں اور وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوکرخودکشی پر مائل ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹین ایج اور پریگنینسی کے دوران یا بعد میں آنے والی ہارمونل تبدیلیاں بھی ذہنی دباؤ کو جنم دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ 50 سے 60 سالہ ملازمت پیشہ خواتین میں خود کشی کا سبب احساسِ تنہائی ہے۔ اس عمر میں اکثرخواتین جب ملازمت سے فارغ ہوکرگھر بیٹھ جاتی ہیں توان کے بچے اپنی زندگی میں مصروف ہوچکے ہوتے ہیں یا شوہر حیات نہیں ہوتے یا علیحدگی ہوچکی ہوتی ہے تو احساسِ تنہائی اور بوریت کی وجہ سے بعض اوقات وہ انتہائی ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں اور خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں اوربعض توخودکشی کر بھی لیتی ہیں۔
ٹین ایج میں اکثر جذباتی لگاؤ کے معاملات میں مایوسی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو خود کشی پراکساتی ہے۔ دراصل ٹین ایج زندگی کا سب سے مشکل اورخطرناک حصہ ہوتا ہے کیونکہ اس دوران مختلف ہارمونل تبدیلیاں رونما ہورہی ہوتی ہیں، جذبات اور جوشیلا پن سر چڑھ کر بولتا ہے، نوجوانوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ کیونکہ عمر کے اس حصے میں وہ نہ چھوٹے ہوتے ہیں نہ بڑے ، لیکن انہیں لگتا یہی ہے کہ وہ بڑے ہوگئے ہیں اور زندگی کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اس لئے وہ جو بھی سوچ رہے ہیں، جوبھی کر رہے ہیں وہی درست ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ چنانچہ ٹین ایج میں ان کی درست سمت میں رہنمائی بہت ضروری ہے تاکہ وہ کسی انتہائی صورت حال کو نہ پہنچ سکیں۔
ڈپریشن موروثی بھی ہوسکتا ہے!!
دیگر جسمانی بیماریوں کی طرح ڈپریشن بھی کئی موروثی ذہنی بیماریوں کی طرح والدین یا خاندان کے دیگر افراد سے ورثے میں ملنے والی بیماری ہے خصوصاً اگر والدین میں سے کوئی ذہنی دباؤ کا شکارہوتویہ بیماری وقت کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی منتقل ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی دباؤ اس قدر عام ہوچکا ہے کہ ایک پیدا ہونے والا نومولود بچہ بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہوسکتا ہے جس کی سب سے اہم وجہ پریگنینسی کے دوران اس کی ماں کا ذہنی دباؤ میں مبتلا ہونا ہے، اسی سے اندازہ لگا لیں کہ جوں جوں یہ بچہ بڑا ہوگا اس کا ذہنی دباؤبھی بڑھتا رہے گا جو زندگی کے کسی موڑ پرخود کشی کا باعث بن سکتا ہے۔
اولاد سے بے خبر والدین
ایک مرتبہ میرے پاس شائستہ نامی ایک 17 سالہ لڑکی علاج کے لئے اپنی ماں حاجرہ کے ہمراہ آئی۔ شائستہ کی خود کشی کی پہلی کوشش تو خوش قسمتی سے کامیاب نہ ہوسکی اور جب میں نے حاجرہ سے اس کے گھر کے ماحول اور روزمرہ مصروفیات کے بارے معلومات لیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ شائستہ بہت چھوٹی تھی جب اس کے والدین میں علیحدگی ہوگئی اورشائستہ کی سرپرستی حاجرہ کومل گئی اب چونکہ حاجرہ ”سنگل پیرنٹ“ ہے۔ چنانچہ اپنی جاب کی وجہ سے وہ اپنے گھر اور بیٹی کو باقاعدہ وقت نہیں دے پا رہی تھی جس سے شائستہ عدم توجہی اور احساسِ تنہائی کا شکار ہوکر بوریت محسوس کرنے لگی تھی، حتیٰ کہ اس نے خود کشی کی کوشش بھی کی۔ چونکہ حاجرہ پڑھی لکھی ہے اور ذہنی و نفسیاتی مسائل کی بھی سمجھ بوجھ رکھتی ہے اس لئے وہ جانتی تھی کہ شائستہ ذہنی دباؤ کے باعث ایسا کر رہی ہے۔ چنانچہ اس نے اس مسئلے کا فوری تدارک کر لیا۔ تمام والدین کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ بچوں کی روزمرہ سرگرمیاں کیا ہیں اوران کے رویوں میں کیسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں؟ تاکہ وہ بروقت اپنے بچوں کو کسی انتہائی اقدام سے بچا سکیں۔
بار بار خودکشی کی کوشش کرنے والے مرد و خواتین
شدید ذہنی دباؤ کے باعث خود کشی میں ناکامی کے باوجود اکثر افراد بار بار کوشش جاری رکھتی ہیں۔ ایسے لوگ ماہرِ نفسیات سے رجوع میں بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں بعض اوقات تو انہیں زبردستی علاج کے لئے لے جانا پڑتا ہے۔ بار بار خود کشی کرنے والوں میں بعض ایسے مرد وخواتین بھی ہیں جوصرف موت کو قریب سے دیکھنے کا چسکا پورا کرتے ہیں۔ ان کا مقصد اپنی جان لینا نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ذہنی دباؤ تلے ایسا کرتے ہیں بلکہ یہ ایسا ہی عمل ہے جیسے بعض نوجوان لڑکے سڑکوں پر رواں ٹریفک کے بیچوں بیچ موٹرسائیکل پر ون ویلنگ جیسے خطرناک کرتب کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کا مقصد جان پر کھیل کرمحض مہم جوئی کا مزا لینا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض مرد وخواتین بھی اپنی بات منوانے اور اپنے اردگرد کے لوگوں پر دھاک بٹھانے کے لئے با ر بار خود کشی کی کوشش کرتے ہیں جن کا مقصد ہر گزاپنی جان لینا نہیں اورنہ ہی وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے آپ نے دیکھا ہوگا اکثرگھریلو خواتین کبھی فینائل پی لیتی ہیں، کبھی جان بوجھ کراپنا دوپٹہ جلا کر شور مچا دیتی ہیں، کبھی لوگوں کوبتا کراپنے اوپر مٹی کا تیل چھڑک لیتی ہیں، کبھی چھت کی طرف بھاگنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ چھت سے کود کر اپنی جان دینا چاہتی ہیں، کبھی اپنی کلائی کاٹنے سے پہلے کسی کو فون کر کے بتا دیتے ہیں کہ وہ یہ قدم اٹھانے جا رہے ہیں۔ دراصل خود کشی کی کوشش سے پہلے لوگوں کو آگاہ کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگ ڈر تو جائیں مگرانہیں سنگین نتائج سے بچا بھی لیں لیکن خود کشی کے ڈراموں کی عادی افراد بعض اوقات سچ مچ خلافِ توقع اپنی زندگی کی بازی ہار دیتے ہیں کیونکہ ضروری نہیں لوگ ہر بار شیر آ گیا شیر آ گیا چلانے والے گڈریے کی مدد کو پہنچیں۔
نسرین نامی خاتون کے ساتھ بھی ایساہی ہوا
جواکثر خودکشی کاجھوٹا ڈرامہ رچا کربیٹھ جاتی اورمعاملہ ٹھنڈا ہوجاتا۔ا سی طرح ایک دن اس نے فینائل کی گولیاں کھا لیں اس کا خیال تھا اسے بروقت ہسپتال پہنچا کر معدے کی صفائی کر کے اس کی جان بچا لی جائے گی جس سے شوہر اور سسرالیوں پرحسبِ معمول اس کا دباؤ بھی برقرار رہے گا مگر بد قسمتی سے اس مرتبہ ایسا نہ ہوسکا اور نسرین کو ہسپتال پہنچانے میں تاخیر ہوگئی اور چند گھنٹے زندہ رہنے کے بعد اپنی جان پر کھیلنے والی حماقتوں کا پچھتاوہ لے کروہ دنیا سے چل بسی۔
میں نے بھی خود کشی کی…
ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اعلیٰ عہدے پرکام کرنے والی 37سالہ شبنم علی بتاتی ہیں “میں نے اپنی زندگی میں 25 برس کی عمر تک دو مرتبہ خود کشی کی کوشش کی جس کی سب سے بڑی وجہ میرے گھر کا ماحول تھا کیونکہ میرے والدین میں اکثرلڑائی جھگڑا رہتا تھا۔ جب وہ لڑتے تو میرا دل چاہتا کہ میں گھر سے کہیں دور چلی جاؤں جہاں مجھے اپنے والدین کے چیخنے چلانے کی آوازیں بھی سنائی نہ دیں۔ میں سولہ برس کی تھی جب ایک دن میرے والدین کئی گھنٹوں سے مسلسل لڑ رہے تھے،
اس دوران میں نے چپکے سے اپنے آپ کو کمرے میں بند کیا اور اپنی کلائی کاٹ لی۔ اس دوران جب میرے بڑے بھائی نے مجھے کافی دیر سے غائب پایا تو مجھے ڈھونڈتے ہوئے وہ کمرے تک پہنچ گئے اور چابی سے دروازہ کھولا تومیں خون میں لت پت بے ہوش پڑی تھی۔ اس وقت کلائی کاٹے ہوئے تقریباً دس منٹ گزر چکے تھے۔ شاید تکلیف کے باعث میں زیادہ گہرا کٹ نہیں لگا پائی تھی اور فوراً بے ہوش ہوگئی۔ بہرحال جیسے تیسے مجھے ہسپتال پہنچایا گیا اور میری پہلی کوشش ناکام ہو گئی۔ میں نے دوسری کوشش تب کی جب میں 22برس کی تھی اوردل کے عارضے کے باعث میری والدہ کا انتقال ہوگیا۔ یہ میری زندگی کا اتنا بڑاحادثہ تھا کہ مجھے ایسا محسوس ہواجیسے میری زندگی میں کچھ باقی نہیں رہا۔ میری پڑھائی کا آخری سمسٹر تھا، زندگی کے ہر معاملے میں میری دلچسپی ختم ہوچکی تھی۔ گھر کا ماحول، والد اور دیگر رشتے داروں کا رویہ میرے لئے بہت تکلیف دہ تھا، میں جو بھی کام کرنے لگتی اپنی ماں کے چہرے کی بے بسی میرے سامنے آجاتی جو مجھے اندر سے توڑ دیتی اور میرا دل چاہتا کہ میں اس جگہ سے ہی بھاگ جاؤں اس مرتبہ میں نے نیند کی گولیاں کھا لیں میراخیال تھا کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور میں خاموشی سے دنیا سے رخصت ہوجاؤں گی مگر اس مرتبہ بھی ایسا نہ ہوا۔ اب میں جس ہسپتال میں زیرِ علاج تھی، وہاں ایک بہت ہمدرد سائیکاٹرسٹ سے میری ملاقات ہوئی جو میری کیس ہسٹری جان چکی تھیں،
انہوں نے مجھ سے بات چیت کی اور پھرکئی ملاقاتوں میں مجھ سے وہ سب اگلوا لیا جوبچپن سے میرے اندر گھُٹ رہا تھا۔ میں نہیں جانتی تھی لیکن وہ غیرمحسوس طریقے سے میرا علاج کر رہی تھیں۔ میں اتنا جانتی تھی کہ ڈاکٹر سے ملنے اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد میں خود کو بہت ہلکا محسوس کرتی تھی۔ شاید اسی لئے وہ جب بھی مجھے بلاتیں، میں ان سے ملنے چلی جاتی۔ انہوں کئی طرح کی تھراپیز اور ادویات کے استعمال سے میرے ذہنی دباؤپر قابو پا لیا۔ چونکہ میں پڑھی لکھی تھی اس لئے ان کے کہنے پر میں نے جاب شروع کی اس سے میرے رویے میں مثبت تبدیلی آنے لگی اور آہستہ آہستہ میں نے زندگی کومثبت نظر سے دیکھنا شروع کر دیا اور اب الحمداللہ میں اپنے کیریئر میں کامیاب ہوں، بہت سی ناکامیوں اور تلخ تجربات سے گزرنے کے باوجود خوش اور مطمئن زندگی گزار رہی ہوں کیونکہ میں سمجھ چکی ہوں جن معاملات میں میرا اختیار نہیں مجھے انہیں اللہ کے حوالے کردینا چاہیے، وہی بہتر راستہ دکھانے والا ہے۔
سوشل میڈیا کابکثرت استعمال
ماہرِ سماجیات ڈاکٹر فوزیہ سلیم علوی کے مطابق “آج کل معاشرتی رویوں میں عدم برداشت خود کشی کی اہم وجہ ہے، اخلاقی، معاشرتی اور خاندانی اقدار کے معنی بدل گئے ہیں خصوصاً ہماری نوجوان نسل عدم برداشت کا سب سے زیادہ شکار ہورہی ہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے ایک پندرہ سولہ سالہ لڑکے نے اس لئے خودکشی کر لی کہ اسے اس کی ماں ڈانٹتی تھی۔ میرے نزدیک خود کشی کا باعث بننے والی یہ خوفناک صورتحال ہے، کیا آج کے دور میں و الدین کو اتنا بھی حق نہیں کہ وہ اپنی اولاد کوکسی بات سے منع کر سکیں؟ ان پر غصہ کر سکیں؟
میر اخیال ہے نوجوان نسل میں عدم برداشت بڑھنے کی ایک وجہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ہے کیونکہ یہ سوشل میڈیا ہی ہے جس کی وجہ سے مادیت پرستی کو فروغ مل رہا ہے اور مادیت پرستی کی وجہ سے زندگی کی چھوٹی چھوٹی ناکامیاں برداشت کرنے کا حوصلہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور اخلاقی قدریں کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں اکثر خواتین کو شکایت رہتی ہے کہ ان کی قربانیوں کو سراہا نہیں جاتا۔ یہی بے وقعت پن کا احساس انہیں خودکشی پر مائل کرتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ترقی پذیر معاشروں میں خود کشی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کیونکہ بلاشبہ وہ ایک بھرپور زندگی توگزارتے ہیں مگراپنی ذات میں یہ احساس پیدا ہوجانا کہ وہ بے معنی زندگی گزار رہے ہیں، خطرناک معاشرتی مسائل کا پیش خیمہ بھی بنتا ہے۔
سسرال میں ناچاقی اکثرذہنی ہم آہنگی نہ ہونے اورہمہ وقت نا چاقی کے باعث جب حالات بے قابو ہونے لگتے ہیں تو بعض خواتین دلبرداشتہ ہوکرخود کشی کی راہ کا انتخاب کرتی ہیں۔ مصباح کنول نے بھی ایسا ہی کیا ہروقت شوہر سے تکرار، اولاد نہ ہونے کے باعث ساس اور نندوں کے طعنوں سے تنگ آکرمصباح نے بلیچنگ پاؤڈر پانی میں گھول کر پی لیا مگر ناکام رہی۔ یہ عدم برداشت نہیں تو اور کیا ہے اس لئے کہنا مشکل ہے کہ اصل قصوروار کون ہے؟“
مرد کیوں خود کشی کرتے ہیں؟
ہر روز ٹی وی اور اخباروں میں خود کشی کرنے والے مردوں کے بارے میں یہ خبریں عام پڑھنے کو ملتی ہیں ”ایک آدمی نے معاشی تنگدستی اور مسائل سے تنگ آکر بیوی اور بچوں کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کر لی۔“ دراصل آج کے دور میں معاشی جنگ لڑنا سب سے مشکل ہوگیا ہے اس لئے جب غربت اور معاشی بدحالی کے مارے لوگ معاشی مسائل میں گھِرجائیں توموت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اورخاندان کا سربراہ پورا پورا خاندان قتل کر کے خود بھی زہر کے گھونٹ پی کر خود کشی کر لیتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مادہ پرستی اور بے حسی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسی لئے معاشی بدحالی مردوں میں خود کشی کی اہم وجہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ گھریلو جھگڑے اور نا چاقی بھی نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں میں بھی خود کشی کی اہم وجوہات ہیں۔
امریکہ میں ہونے والی حالیہ تحقیق کے مطابق سالانہ 30 ہزارسے زائد امریکی افراد خودکشی کرتے ہیں جن میں 80 فیصد سے زائد مرد ہیں جن کی عمر تقریباً 20 سے 24 برس کے درمیان بتائی جاتی ہے اور یہ شرح امریکہ میں خواتین کے مقابلے میں چار گنا سے بھی زیادہ ہے۔
خود کشی کرنے والوں کی نفسیات کیا کہتی ہے؟
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر رافعہ رفیق کے مطابق
بعض اوقات خواتین کا معمولی باتوں پر غصہ کرنا اور رونا عام بات ہے۔ بعض اوقات وہ پورا دن ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر گزار دیتی ہیں۔ انہیں اپنی ذات میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ حتیٰ کہ انہیں اچھے کپڑے پہننا اورسجنا سنورنا بھی اچھا نہیں لگتا، شاید اسی لئے کوئی انہیں اچھا کہے یا برا، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ وہ خواتین ہیں جوزندگی کے ناخوشگوار تجربات سے گزرنے کے بعد حالات سے تنگ آکرزندگی جینے کا حوصلہ کھو دیتی ہیں۔ ان میں خود اعتمادی نہیں رہتی جو ان کی پوری شخصیت کو تار تار کردیتی ہے جس سے وہ خود کشی کی عملی کوشش کرتی ہیں بعض اوقات خود کشی کی شدید خواہش کے باوجود وہ زندہ بچ جاتی ہیں اور دوبارہ اسی شدت سے کوشش کرتی ہیں جبکہ بعض لوگ ایک ہی جھٹکے میں زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔
خود کشی نہ کریں کیونکہ…
خودکشی کی بڑی وجہ شدید نوعیت کا ڈپریشن ہی ہے جو ایسی ذہنی بیماری نہیں جس کا علاج ممکن نہ ہوبلکہ اپنی روزمرہ سرگرمیوں میں ردوبدل کر کے ڈپریشن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اپنی زندگی کو با معنی اور بامقصد بنائیں، اپنے اندرمشکلات سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ ذہنی دباؤ سے بچنے کے لئے خود کو مصروف رکھیں، مثبت سوچ رکھنے والے لوگوں کے ساتھ دوستی کریں، جب کسی مایوسی یا نا امیدی کا سامنا کرنا پڑے تو اس کا پوشیدہ پہلو سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ جن چیزوں پر آپ کا اختیار نہیں، ان کے بارے میں فکرمند ہونے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دلبرداشتہ ہونے سے بہتر ہے حالات کا دھارا اپنی طرف موڑنے کی کوشش کریں نہ کہ ان سے ہار مان کر زندگی کا خاتمہ کر لیں۔
کوئی بھی مشکل زندگی سے بڑی نہیں ہوتی
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر رافعہ رفیق کے مطابق اگر آپ کسی بھی طرح کے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو حالات سے بھاگنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ کوئی بھی مشکل زندگی سے بڑی نہیں ہوتی۔ اگر ڈپریشن شدید نوعیت اختیارکرنے لگے تواینٹی ڈپریسنٹ گولی کا استعمال کرلیں مگر خیال رہے اسے عادت نہ بنائیں۔ اس کے باوجود مزاج میں تبدیلی نہ آئے تو ماہرِ نفسیات سے مدد لیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کے ارد گرد کوئی قریبی دوست یا گھر کا کوئی فرد اس ذہنی کیفیت کا شکار ہوتو اس کے رویے میں آنے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کریں یعنی اگروہ نا امیدی کی باتیں کرے، تنہا رہنا پسند کرے، ہروقت افسردہ اورمایوس نظرآئے تو اس پر نظررکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی مدد بھی کریں۔ کہیں ایسا نہ ہوآپ کی لاپرواہی آپ کے اردگرد موجود کسی شخص کو خود کشی جیسے عملی اقدام پر مائل کر دے۔
نوٹ: (فیچر میں شامل تصاویرعلامتی اظہار کے لئے ہیں۔)