طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر ماہ ڈائریا کے 10 لاکھ سے زائد کیس رپورٹ ہورہے ہیں، جس کے نتیجے میں تقریباً 110 بچے روزانہ جاں بحق ہو جاتے ہیں، جن میں سے اکثریت کی جانیں زنک سپلیمنٹس دیکر بچائی جاسکتی ہے۔
کراچی کے مقامی ہوٹل میں ’’زنک کی صحت کیلئے اہمیت‘‘ کے حوالے سے سیمینار منعقد ہوا، سیمینار کا انعقاد پاکستان زنک سوسائٹی اور مقامی دوا ساز ادارے نے کیا تھا، جس سے انڈس اسپتال کراچی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عبدالباری، قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ندیم قمر، مقامی دوا ساز ادارے فارمیوو کے منیجنگ ڈائریکٹر ہارون قاسم، چیف آپریٹنگ آفیسر ندیم رحمت اور دیگر نے خطاب کیا۔
طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عالمی ادارہ صحت سے پری کوالیفائیڈ پلانٹس میں زنک کی مصنوعات کی تیاری نہایت خوش آئند ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کا انحصار غیرملکی فارماسیوٹیکل اداروں کی مصنوعات پر سے کم ہوگا۔
ماہرین نے کہا کہ اب ملکی اور غیر ملکی ادارے زنک کی مصنوعات درآمد کرنے کی بجائے مقامی کمپنی فارمیوو سے ارزاں قیمت پر خرید سکیں گے، جس کے نتیجے میں نا صرف قیمتی زر مبادلہ کی بچت ہوگی بلکہ اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو زنک دیکر ڈائریا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات سے بچا جاسکے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کمپنی کی بنائی ہوئی زنک ادویات کا ڈبلیو ایچ او سے پری کوالیفائی ہونا ملک کیلئے ایک نہایت خوش آئند پیشرفت ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کے بعد لاکھوں بچے ڈائریا میں مبتلا ہوئے لیکن انہیں زنک سپلیمنٹس دیکر اکثریت کی جانیں بچالی گئیں، زنک ڈائریا سے بچانے والا ایک اہم ترین عنصر ہے، جسے او آر ایس کے ساتھ دیکر بچوں کو ڈائریا اور غذائی قلت سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالباری کا کہنا تھا کہ یونیسیف اور دیگر عالمی ڈونر ایجنسیاں زنک کی مصنوعات ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے خریدتی ہیں لیکن اب مقامی کمپنی کے ڈبلیو ایچ او پری کوالیفائیڈ پلانٹ ڈیکلیئر ہونے کے بعد یہ مصنوعات ان اداروں کو چند روپوں میں دستیاب ہونگی، جس کے نتیجے میں ان کی فراہمی ملک کے زیادہ تر حصوں میں کی جاسکے گی۔
انہوں نے اس موقع پر فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو مشورہ دیا کہ وہ ٹی بی، ایچ آئی وی اور کینسر کی ادویات مقامی طور پر تیار کریں کیونکہ ان ادویات کی خریداری پر گلوبل فنڈ اور دیگر عالمی اداروں کے 200 سے 300 ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں جو کہ بین الاقوامی فارماسوٹیکل کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں چلے جاتے ہیں جبکہ ان ادویات کی مقامی طور پر تیاری سے یہ قیمتی زرمبادلہ پاکستان آسکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری کا کہنا تھا کہ پاکستانی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے گزشتہ سال 713 ملین امریکی ڈالر کی ادویات اور مصنوعات برآمد کیں اور امید ہے کہ نئی پیشرفت سے پاکستانی مصنوعات کی برآمد ایک ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی، عالمی سطح پر بچوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ ڈائریا ہے اور بدقسمتی سے اس مرض سے مرنے والے 50 فیصد بچوں کا تعلق پاکستان، ہندوستان اور نائیجیریا سے ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈائریا سے ہونیوالی زیادہ تر اموات سے بچاؤ ممکن ہے، جس کا ایک اہم ذریعہ صاف پانی کی فراہمی اور ڈائریا میں مبتلا بچوں کو او آر ایس کے ساتھ ساتھ زنک سپلیمنٹس دینا بھی شامل ہے، انہوں نے اس موقع پر مقامی فارماسوٹیکل انڈسٹری اور میڈیکل یونیورسٹیوں کے مابین تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا۔
ہارون قاسم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحتمند معاشرے کے قیام کیلئے کوشاں ہیں، عالمی ادارہ صحت سے فارمیوو کے مینوفیکچرنگ پلانٹ کو پری کوالیفائی کروانا بڑی کامیابی ہے۔