سائفر کیس میں بطور گواہ سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کے بیان نے بھی سابق وزیر اعظم کے سائفر بیانیے کی قلعی کھول دی۔
گواہ نے بتایا سائفر سات مارچ کو آیا، ستائیس مارچ کو لہرایا گیا،اٹھائیس مارچ کو بنی گالا میں سائفر مجھ سے پڑھوا کر اسے میٹنگ منٹس کا حصہ بنا لیا گیا ۔
بطور گواہ سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے بیان میںکہا کہ کوئی بھی سائفر ٹیلیگرام “ڈی کلاسیفائی” نہیں ہو سکتی، ایسا کرنے سے سائفر سکیورٹی سسٹم بری طرح متاثر سکتا ہے،پھر بھی سابق وزیراعظم نے آٹھ اپریل کو کابینہ کے اجلاس میں سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کو کہا،میں نے بطور سیکریٹری خارجہ ، اور سیکریٹری کابینہ ڈویژن اور سیکریٹری قانون نے شدید مخالفت کی ۔ جس کی وجہ سے کابینہ سائفر “ڈی کلاسیفائی” کرنے کی منظوری نہیں دے سکی۔
سابق وزیر اعظم نے 9 اپریل کو اپنے اقتدار کے آخری روز پھر کابینہ اجلاس بلا لیا ۔جس کے بعد سائفر کو “ڈی کلاسیفائی”کرنے کی منظوری دے دی گئی ۔
سہیل محمود کے مطابق اس میٹنگ میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور اعظم خان بھی موجودتھے۔ سائفر کی کاپیاں صدر مملکت، چیف جسٹس، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینٹ کو بھجوائی گئیں۔
بطور گواہ سابق سیکرٹری خارجہ کا کہنا ہے امریکی ناظم الامور نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے لہرائے گئے سائفر کی نقل منگوائی، ڈی جی امریکہ ڈیسک فیصل ترمذی کے بقول امریکی ناظم الامور خود سائفر لیکر امریکہ گئیں، ناظم الامور نے بتایا کہ جلسہ عام میں سابق وزیر اعظم کے بیان کو امریکا اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ۔
سائفر کیس میں گواہوں کے بیانات نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیا ۔