سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو سیاسی اور سماجی انصاف، تقریر اور سوچ کی آزادی کا حق حاصل ہے، اپنے ناقدین اور سیاسی مخالفین کو ریاست کا دشمن سمجھنے کے بجائے عوام کی مرضی کو قبول کرنا چاہیے۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے عماد یوسف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ خارج کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست کو طاقت کا استعمال آئین کے مطابق کرنا چاہیے، طاقت اور اختیارات کے غلط استعمال سے پرہیز اور بدنیتی سے بچنا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے میں لکھا کہ اختیارات کے غلط استعمال سے معاشرے میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے، مشاہدے میں آیا ہے کہ میڈیا پرسن، سیاستدانوں، کارکنوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کیخلاف سیاسی عزائم پر مبنی بغاوت جیسی ایف آئی آرز درج کی جارہی ہیں۔
یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ لوگ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں، ان کیخلاف مقدمات آئین کو مجروح کرنے کے مترادف ہیں، ریاست کو اپنی طاقت اور اختیار کا استعمال آئین کے مطابق کرنا چاہیے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا لوگوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے معلومات فراہمی کا ذریعہ ہیں، شہریوں کیخلاف ایسی قانونی چارہ جوئی آئین کو مجروح کرنے کے مترادف ہے، خوف کے ماحول میں شہریوں کے علاوہ میڈیا بھی آزادی سے اپنے فرائض سرانجام نہیں دے سکتا۔
اپنے شہریوں کیخلاف بدنیتی پر مبنی غیر سنجیدہ قانونی چارہ جوئی ریاست کے حق میں نہیں، اس کا نتیجہ ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کی صورت میں نکلتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جمہوری حکومت عوام کی، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے سمجھی جاتی ہے، حکومت کو اپنے ناقدین اور سیاسی مخالفین کو ریاست کا دشمن سمجھنے کے بجائے عوام کی مرضی کو قبول کرنا چاہیے۔
سیاسی اور سماجی انصاف کے فروغ کے لیے رواداری کی فضا پیدا کر کے اداروں کے خلاف شہریوں کی نفرت اور عدم اعتماد کو دور کرنا چاہیے، طاقت اور اختیارات کے غلط استعمال سے پرہیز اور بدنیتی سے بچنا چاہیے۔