اسلام آباد ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کی قیدیوں کی سیاسی گفتگو پر پابندی کالعدم قرار دینے کا سنگل بینچ کا فیصلہ فوری معطل کرنے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کردی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامرفاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران شیر افضل مروت کے وکیل کو وکالت نامہ جمع کرانے کیلئے وقت دے دیا گیا۔
لازمی پڑھیں۔ پنجاب حکومت نے قیدیوں کی سیاسی گفتگو پر پابندی کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کردی
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی جانب سے سنگل بینچ کا فیصلہ فوری معطل کرنے کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے ایک بار پھر مسترد کردیا۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے استفسار کیا کہ کون سی سیاسی گفتگو ہو رہی ہے کیا ہو رہا ہے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ یہ ( پی ٹی آئی رہنما ) جیل میں جا کر ہدایات لیتے ہیں اور باہر آ کر مسائل بناتے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینا بہت غیرمعمولی آرڈر ہوتا ہے، میں نے اپنےدس سال میں صرف ایک قانون کو کالعدم قرار دیا ہے۔
جج اِن چیمبر نے وجوہات لکھی ہیں اور آزادیِ اظہار ِرائے سے متعلق لکھا ہے، آپ آئندہ تاریخ پر دلائل دیں اور عدالت کو مطمئن کریں کہ فیصلہ درست نہیں ہے۔
بعدازاں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 26 نومبر تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے قیدیوں کی سیاسی گفتگو کی جیل رولز کی شق کالعدم قرار دی تھی جس کے خلاف پنجاب حکومت کی جانب سے اپیل دائر کی گئی تھی۔