بھارت نے چیمپئنز ٹرافی کیلئے پاکستان آنے سے انکار کر دیاہے جبکہ پی سی بی اپنے موقف پر ڈٹ گیا ہے اور ہائبرڈ ماڈل قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے جس پر سینئر صحافی حامد میر نے چونکا دینےوالا انکشاف کیا کہ گزشتہ دس روز میں کچھ ایسا ہواہے جس کے باعث بھارت نے ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بھارتی صحافی وکرانت گپتا کا کہناہے کہ بھارتی ٹیم کے کچھ کھلاڑی بھی پاکستان آنے سے متعلق کشمکش کا شکار تھے ۔
وکرانت گپتا
سماء نیوز کے پروگرام ’ زور کا جوڑ‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بھارتی سپورٹس صحافی وکرانت گپتا کا کہناتھا کہ میں نے سوا سال قبل ایشیا کپ کے موقع پر کہا تھا کہ بھارتی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کیلئے پاکستان جائے گی لیکن حالات بدل گئے مجھے پانچ چھ ماہ سے لگ رہا تھا کہ شائد اب انڈیا نہیں جائے گا ، ایک سال پہلے دنیا الگ تھی ، اس وقت بائیڈن امریکہ کے صدر تھے جبکہ اب ٹرمپ منتخب ہو چکے ہیں ۔ سوا سال قبل مجھے لگا تھا کہ شائد کچھ حالات بہتر ہو جائیں گی لیکن دونوں ملکوں میں سفارتی مسائل ہیں تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ بھارت اپنا موقف بدل لے ۔پاکستان میزبان ہے اور بطور میزبان پاکستان کا حق بنتا ہے کہ وہ اعتراض کرے، میری ہمدردی پاکستان کے ساتھ ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے تو کہہ دیا ہے کہ حکومت ٹیم بھیجنے کی اجازت نہیں دے رہی ، تو اب گیند پاکستان اور آئی سی سی کے کورٹ میں ہے ، اب یہاں کیا کرناہے یہ ان دونوں پر منحصر ہے ۔
وکرانت گپتا کا کہناتھا کہ جہاں تک کرکٹ کی بات ہے تو مجھے لگتا ہے کہ سیکیورٹی ایک وجہ ہے اور دوسری وجہ سفارتی تعلقات ہیں، سیکیورٹی کی بات ہوتی ہے تو پھر پلیئرز کی سیکیورٹی کی بات کی جاتی ہے ، بھارتی ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں سے میری بات ہوئی تو وہ حقیقت میں اس کشمکش میں تھے کہ انہیں پاکستان کھیلنے جانا چاہیے یا نہیں جا نا چاہیے ۔
سینئر صحافی حامد میر
حامد میر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی کچھ ہی دن پہلے اکتوبر 2024 میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہوا، اس میں بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اپنے وفد کے ساتھ آئے اور 2دن تک ٹھہرے ، جب وہ واپس گئے تو انہوں نے بیان دیا تھا کہ ہم بہت خوش جا رہے ہیں، انہوں نے حکومت پاکستان کی میزبانی کا شکریہ بھی ادا کیا تھا، بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان میں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات بھی ،اس دوران بھارتی صحافی خصوصی طور پر لاہور گئےوہاں نوازشریف سے ملاقات ہوئی، نوازشریف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو کرکٹ ضرور کھیلنی چاہیے ۔
حامد میر کا کہناتھا کہ اب جو فیصلہ بھارت کاآیا ہے کہ بھارتی ٹیم پاکستان چیمپئنز ٹرافی کھیلنے نہیں آئے گی، لگتا ہے کہ گزشتہ تین چار ہفتوں میں ایسی چیز ہوئی ہے جس کا نا تو پاکستان کی حکومت کھل کر اظہار کر رہی ہے اور نہ ہی بھارتی حکومت کھل کر اظہار کر رہی ہے ، اگر بھارت کا پرانا موقف ہے کہ دہشتگردی ہوتی ہے تو پھر جے شنکر کیوں آئے تھے پاکستان ،، جاتے ہوئے جے شنکر نے ٹویٹ بھی کی ۔
حامد میر کا کہناتھا کہ دو تین ہفتے میں بیک ڈور چینل میں کچھ ایسی پیشرفت ہوئی ہے ، جو کہ میڈیا میں نہیں آئی لیکن ان کی وجہ سے پاکستان اور بھارت آپس میں کرکٹ نہیں کھیل رہے ، محسن نقوی کے پاس ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ان کے پاس ایک سیاسی عہدہ بھی ہے ، وجہ اگر میں بتاوں تو مناسب نہیں اگر وہ خود بتائیں تو بہتر ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ میری پاکستان کی حکومت کے اہم آدمی سے بات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ جب پچھلے سال پاکستان کی ٹیم بھارت گئی تھی تو اس وقت بھی آپ کو پتا تھا کہ بھارتی ٹیم نے پاکستان آنا ہے تو اس وقت آپ نے ان سے بات نہیں کی؟ تو انہوں نے کہا کہ اس وقت تو یہی لگ رہا تھا کہ بھارتی ٹیم آئے گی ۔
سینئر صحافی نے کہا کہ پچھلے مہینے تک ہمیں بھی یہی پتا چل رہا تھا کہ جب جے شنکر پاکستان آئے اور اسحاق ڈار سے غیر متوقع میٹنگ ہوئی ، جے شنکر کی خواہش پر اسحاق ڈار سے میٹنگ ہوئی، اس صورتحال میں بھارتی ٹیم پاکستان آ رہی تھی لیکن اعلان نہیں کیا گیا تھا، بیک ڈور چینل پر یہی کہا جارہا تھا کہ بھارتی ٹیم آئے گی لیکن پھر کچھ ایسی ڈویلپمنٹ ہوئی جس پر بھارت نے پہلے لیئے گئے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی اور اسے تبدیل کیا ۔وزیراعظم شہبازشریف کی پالیسی کچھ اور ہے ، نوازشریف کی پالیسی کچھ اورہے ، نوازشریف نے اسحاق ڈار کے ذریعے اس سلسلے میں کام کیا تھا ۔
باسط علی
باسط علی نے کہا کہ اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ یا بھارتی کرکٹ بورڈ پریشان نہیں بلکہ آئی سی سی پریشان ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ، کبھی آئی سی سی ایونٹ ہائبرڈ ماڈل ہواہے ؟ کبھی بھی نہیں ہوا تو اس مرتبہ کیسے ہو جائے گا؟ اگر یہ ہائبرڈ پر جاتا ہے تو آئی سی سی ایکسپوز ہو جائے گا ۔