بانی پی ٹی آئی کی حمایت میں صیہونی اور غیر ملکی لابی آپریشن گولڈ سمتھ کے ذریعے پوری طرح متحرک ہو چکی ہے، ایک بار پھر امریکی گانگریس ارکان نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے امریکی صدرجوبائیڈن کو ایک خط تحریرکیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق 60 سے زائد امریکی کانگریس کے اراکین نے صدر جو بائیڈن کو خط لکھا ہے، خط میں پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، 8فروری کے الیکشن اور پی ٹی آئی کارکنان کے اغواء کے بارے میں بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا گیا ہے
خط کے مندارج میں پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ "پاکستان میں ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدلیہ فوج کے زیراثر ہیں جس کی وجہ سے ان کے آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، حکومت نے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر دباؤ بڑھایا ہے، جس سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچا، پاکستانی حکومت بین الاقوامی سطح پر بھی جبر کے اقدامات کر رہی ہے، جس میں بیرون ملک مقیم کارکنوں کے اہل خانہ کی حراست شامل ہے، خط میں پاکستانی حکومت سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور خیریت کو یقینی بنانے کا مطالبہ اور امریکی سفارتخانے کے اہلکاروں کو آڈیالہ جیل کا دورہ کرنے کا کہا گیا ہے۔
خط کےآخر میں یہ مطالبہ بھی کیاگیا ہے کہ" امریکی انتظامیہ کو پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جواب دینے کے لیے اپنی پالیسی میں تبدیلیاں کرنی چاہئیں، امریکی حکام کو پاکستانی حکام پر دباؤ ڈالنا چاہئے، خط کے ساتھ امریکی کانگرس مین سوشل میڈیا کے ایکس اکاؤنٹ پر بھی متحرک نظر آرہے ہیں۔
امریکی کانگریس مین گریگ کیسر نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ آج میں نے کانگریس کے 60 سے زائد اراکین کی قیادت کی جو پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی حمایت میں ایک خط پر دستخط کر رہے ہیں، سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن میں سابق وزیر اعظم عمران خان بھی شامل ہیں۔
سیاسی اورخارجہ امور کےماہرین کا ماننا ہےکہ مذکورہ بالاخط اوراسکےمندرجات بلاشبہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور خود مختاری کی خلاف ورز ی ہے۔
سیاسی اور خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ"بیرونِ ملک فرار کچھ نام نہاد پی ٹی آئی کے ارکان غیر ملکی لابیز اور سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان مخا لف سر گرمیوں اور ریاست مخالف پروپیگنڈہ میں مصروفِ عمل ہیں "اس منظم غیر ملکی لابنگ سےقبل بھی عالمی ذرائع ابلاغ اور نشریاتی ادارے انٹرسیپٹ، فنانشل ٹائمز، الجزیرہ، بی بی سی اور اکانومسٹ جیسے جریدے بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت کی لابنگ میں پیش پیش ہیں۔
شواہد کی روشنی میں یہ انکشاف بھی یہ سامنے آیا کہ مختلف کمپنیوں اور بااثرشخصیات کو پی ٹی آئی نے لابنگ کے لئے مجموعی طور پر لاکھوں ڈالرز کے فنڈز فراہم کئے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ کوئی پہلاموقع نہیں ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت ریلیف کےحصول کیلئے غیرملکی لابنگ فرمز اور بااثر شخصیات کا استعمال کر رہے ہیں، سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مذکورہ بالا خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور یہ صرف اور صرف صیہونی طاقتوں کی ایما ء پر کیا جا رہا ہے
سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہناہےکہ "مذکورہ بالا خط حقائق کے منافی اور ایک طرف کی کہانی بیان کرتاہے، کسی بھی ملک کی ایک سیاسی شخصیت جو سنجیدہ نوعیت کے کے مقدمات کی پاداش میں زیر حراست ہے کیلئے اتنی تگ و دونہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ سنگین خدشات بھی پیدا کرتی ہے، اس خط اور غیر ملکی لابنگ نے بانی پی ٹی آئی کے نظریہ "ہم کوئی غلام ہیں" کو عملاَ دفن کر دیا ہے۔
دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خط کا مقصد پاکستان کے نظام انصاف پر دباؤ ڈالنا ہے جو سراسر کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت ہے، اس خط کے ذریعے ریاستی اداروں کی اعلی قیارت کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے ۔