فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کو پہلی سہہ ماہی میں 90 ارب روپے شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث رواں سال ہی منی بجٹ کے خطرات منڈلانے لگے۔
تفصیلات کے مطابق رواں مالی سال منی بجٹ آنے کا امکان ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو تجاویز سے آگاہ کر دیا ۔ دستاویز کے مطابق ٹیکس ریونیو میں کمی کی صورت میں ایک سو تیس ارب روپے کے ہنگامی ٹیکس اقدامات کی تجویز دی گئی ہے۔
دستاویز کے مطابق مشروبات یا شوگر ڈرنکس پر 5 فیصد ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے ۔ جس سے حکومت کو ماہانہ دو اعشاریہ تین ارب روپے اضافی ریونیو حاصل ہوگا ۔ مشینری کی درآمد پر ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس سے ماہانہ دو ارب روپے حاصل ہوں گے۔
صنعتی خام مال کی درآمد پر ایک فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس سے ماہانہ ساڑھے تین ارب، کمرشل امپورٹرز پر ایک فیصد ٹیکس سے ماہانہ ایک ارب حاصل ہونے کا امکان ہے۔ سپلائیرز پر بھی ایک ایک فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ ملک کے مشکل معاشی حالات کے باعث حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں بڑا ٹیکس ہدف رکھا تھا، 1800 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے تھے، تاہم ٹیکس ہدف حاصل میں ناکامی کے بعد منی بجٹ لانے پر کام شروع کردیا گیا ہے۔
منی بجٹ ان ٹیکس اقدامات کو کہا جاتا ہے جو حکومت جون کے بجٹ کے بعد نئے ٹیکس اقدامات لیتی ہے، ماضی میں منی بجٹ 30 یا 40 ارب روپے کا ہوتا تھا، لیکن اب جو بھی منی بجٹ ہے وہ 200 یا 300 ارب روپے کا ہوتا ہے، بجٹ میں رکھے گئے ٹیکس اہداف کو حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد ٹیکس آمدن بڑھانے کو منی بجٹ کہتے ہیں۔ منی بجٹ کے لیے پارلیمنٹ سے فائننس بل منظور کرایا جاتا ہے ۔ منی بجٹ بالکل بجٹ کی طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں پیش ہوتا ہے اور اس کی شق وار بریفنگ ہوتی ہے۔