کب تک ۔ ۔ ۔؟ آخر کب تک ہم صرف "دن" ہی مناتے چلے جائیں گے، کچھ اور ہوگا بھی کہ نہیں؟ اب دیکھئے نہ کہ کیا ہوا رانی پور والے کیس کا؟ یا پھر دوسرے کئی ایسے مقدمات کاجو کم عمر لڑکیوں اور معصوم بچیوں کے جنسی، جسمانی اور صنفی تشدد پر آدھارت ہیں۔
ہمارے معاشرے کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے، پتہ نہیں کیوں ایسا ہو رہا ہے کہ آئے دن خواتین پر تشدد کی خبریں زور پکڑتی جا رہی ہیں، لڑکیوں اور عورتوں پر نہ صرف تشدد ہو رہا ہے بلکہ وحشیانہ تشدد کے بعد انہیں قتل کر کے، ان کے ٹکڑے، ٹکڑے کر کے اُنہیں کہیں بھی پھینک دیا جاتا ہے، کسی خالی پلاٹ، کسی کچرے خانے یا پھر کسی گندے نالے میں ۔ اور پھر مقتولین کے گھر والوں کی نظریں انتظار کرتے، کرتے تھک جاتی ہیں لیکن انہیں انصاف ملتا ہوا نظر نہیں آتا۔
ہمارے یہاں کم عمر بچیوں کی زبردستی شادیاں کروائے جانے کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں، سندھ میں تو قانون سازی کے باوجود دھڑلے سے یہ کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے، پنجاب میں بھی کم عمری کی شادیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اللہ کرے کہ KPK اور بلوچستان میں اس قدر خراب صورتحال نہ ہو۔ تو بہرحال، اب ان شادیوں میں چُھپی ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ کم عمر بچیاں اپنی شادیوں کے کچھ سالوں بعد ہی اللہ میاں کو پیاری ہو جاتی ہیں ، کیسے؟؟ ارے بھائی ایک کم عمر ماں کے ہاں ہر سال بچے کی پیدائش ، جسم میں خون کی کمی، صحت مند غذاؤں کا فقدان، غربت، بے چارگی، معاشرتی ناانصافیاں، علاج معالجے کی سہولیات کا نہ ہونا ۔ اس تمام صورتحال میں کوئی بھلا کیسے بچ پائے گا!!
پاکستان کے شہری علاقوں کے علاوہ غربت زدہ، پسماندہ علاقوں میں کم سن لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد کو جنسی، جسمانی اور صنفی تشدد کے علاوہ اور کون کون سےمظالم کا سامنا ہے یہ معلومات اگر آپ کو درکار ہوں تو ان مسائل پر کام کرنے والی این جی اوز (NGOs) سے رابطہ کیا جاسکتا ہے لیکن میں آپ کو یہاں جو ایک بات بتانا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جب بھی اس قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے کچھ ہی دیر بعد سول سوسائٹی حرکت میں آجاتی ہے اور ایسی آتی ہے کہ الحفیظ، الاامان ۔
دوسری جانب سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز اور اخبارات ایک سے بڑھ کر ایک خبر چلانے اور لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے پھر اس کے بعد جلسے جلوس نکالے جانے کا دور، دورہ شروع ہوتا ہے۔ اور پھر اُس کے بعد پتا ہے کیا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اک خاموشی سی چھانے لگتی ہے، ایک سناٹا سا چھا جانے لگتا ہے، سب کچھ دھندلا سا جاتا ہے۔ اور پھر وہ دُھند ایسی چھاتی ہے کہ چھٹنے کا نام نہیں لیتی ۔
آج کل کے زمانے میں سول سوسائٹی، سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مظلوموں کی ایک آس بن چُکے ہیں ، غریب عوام ان پلیٹ فارمز(Platforms) کو ایک مضبوط سہارا سمجھنے لگے ہیں ۔ رانی پور کا واقعہ اگر عوام کے سامنے نہ آتا تو اب تک اس کیس میں جوکچھ بھی پیش رفت ہوئی ہے کیا وہ ہو سکتی تھی؟
بس یہاں ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ آخری وقت، اور آخری دم تک بے بس، لاچار مظلوموں کا ساتھ نبھایا جائے، اپنی کوششوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کی جائے، پھر چاہے وہ کوشش سول سوسائٹی کی طرف سے ہو، میڈیا کی جانب سے ہو یا پھر کسی تنہا، اکیلے شخص کی طرف سے کی گئی کوئی انفرادی کوشش۔
آئیے آج کے دن یہ عہد یہ عزم کریں کہ ظلم اور ناانصافیوں کے خاتمے کے لیے ہم اپنی، اپنی ذمے داریوں کو مزید بھر پور انداز میں نبھاتے چلے جائیں گے ۔
کاشف شمیم صدیقی