پاکستان کے انتخابات میں خواجہ سراؤں کی شرکت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق کو تسلیم کرنے میں اہم پیش رفت ہوئی ہیں، لیکن اب بھی متعدد ایسے چیلنجز موجود ہیں جو خواجہ سراؤں کو انتخابی عمل میں مکمل شرکت کرنے سے روکتے ہیں۔ پاکستان میں خواجہ سراؤں کو اکثر سماجی امتیاز اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور یہی سماجی رویے ان کے سیاست میں حصہ لینے کی حوصلہ شکنی کر سکتے ہیں۔
2024 کے جنرل الیکشن میں ملک بھر سے صرف تین خواجہ سراؤں نے حصہ لیا۔ صوبہ خیبر پختوانخوا سے 2 خواجہ سراؤں نے بطور آزاد امیدوار انتخاب میں حصہ لیا۔ بلال خان عرف صوبیہ خان نے پشاور کی صوبائی نشست جبکہ صائمہ شوکت نے ضلع ہری پور کی صوبائی نشست پر الیکشن لڑا۔ اسلام آباد سے نایاب علی نے قومی اسمبلی کے دوحلقوں سے بطور آزاد امیدوار حصہ لیا ۔یاد رہے نایاب علی نے 2018کے انتخابات میں بھی ضلع اوکاڑہ سے حصہ لیا تھا۔ گزشتہ انتخابات کی نسبت 2024کے انتخابات میں خواجہ سراؤں نے الیکشن لڑنے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی۔الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ملنے والی معلومات کے مطابق صوبہ پنجاب ،سندھ اور بلوچستان سے کوئی بھی خواجہ سرا 2024کے انتخابات کا حصہ نہیں بن سکا۔
2024عام انتخابات کے خواجہ سراامیدوار کو ن تھے
خواجہ سرامحمد ارسلان عرف نایاب علی نے الیکشن 2024کی واحد خواجہ سرا ہیں جن کو قومی اور بین الاقومی سطح پر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں پذیر ائی حاصل ہوئی۔نایاب علی نے وفاق کے دو حلقوں این اے 47اور این اے 46 سے انتخاب میں حصہ لیا۔ این اے 46 سے انہوں نے 323 ووٹ جبکہ این اے 47سے 112 ووٹ حاصل کیے،دونوں حلقوں سے نایاب علی نےکل 434ووٹ حاصل کئے۔نایاب علی کا یہ دوسرا الیکشن تھا، پہلا الیکشن انہوں نے 2018 میں پی ٹی آئی عائشہ گلالئی کے ٹکٹ پر پنجاب کے ضلع اوکاڑہ کے حلقہ این اے 142 سے لڑا جس میں اانہیں 197ووٹ ملے تھے۔
پشاور سے صوبائی حلقہ پی کے 81سے بلال خان عرف صوبیہ خان نے 40ووٹ حاصل کیے۔اس حلقہ میں خواتین ووٹرز کی تعداد 93ہزار438جبکہ کل ووٹرز کی تعداد 2لاکھ5ہزار 378تھی۔بلال خان کو ملنے والے 40ووٹ صرف اس حلقے کے خواجہ سراؤں کے ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر خواتین یا مردوں میں سے کسی نے بلال خان کو ووٹ کاسٹ کیا ہوتا تو شاید انکے ووٹوں کی تعداد سو سے زائد ہوتی۔اگر ہم دوسرا پہلو دیکھیں تو ایک حلقہ میں 2لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹ ہیں کیا ان میں خواجہ سرا کہ صرف 40ووٹ تھے۔ اس بارے میں بلال خان عرف صوبیہ خان کا کہنا ہے کہ’’ میرے اتنے ووٹ نہیں ہیں مجھے میرے حلقے کی عوام نے،میری کمیونٹی کے لوگوں نے اور خواتین نے بھی بہت ووٹ کا سٹ کئےہیں،انہوں نے مزید بتایا کہ میں نے 4000کے قریب ووٹ حاصل کئے مجھے فارم 45پر دکھایا بھی گیا تھالیکن میرے ووٹ خرب ہو گئے تھے۔میں نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا مجھے وہاں پتہ چلا کہ میرے حلقے کے لوگوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا‘۔
2024 کے انتخابات میں صوبہ پنجاب ،سندھ اور بلوچستان سے کسی بھی خواجہ سرا نے حصہ نہیں لیاجبکہ 2018کے انتخاب میں صوبہ پنجاب سے2 خواجہ سراؤں ، 1اسلام آباد،ٍ1 کے پی سے جبکہ صوبہ سندھ اور بلوچستان سے کوئی بھی خواجہ سرا الیکشن کا حصہ نہیں تھا ۔
خواجہ سرا صائمہ شوکت نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 46 ہری پور1سے پہلی بار جنرل الیکشن میں حصہ لیا۔ انکا انتخابی نشان مور تھا جبکہ ا نہوں نے 926ووٹ حاصل کئے۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ صائمہ شوکت نے حلقہ میں 5 دوسرے امیدواروں سے زیادہ926 ووٹ حاصل کئے۔صائمہ شوکت نےسیاسی سفر کا آغاز بلدیاتی انتخابات سے کیا۔مشرف دور میں ہونے والے 2005 کے انتخابات میں وارڈ نمبر 4 سے الیکشن میں حصہ لیا ۔اس انتخاب میں انکا نشان گھڑا تھا اور انہوں نے 422ووٹ حاصل کئے تھے۔
کیا وجوہات ہیں کہ خواجہ سرا انتخابی عمل کا حصہ نہیں بن رہے؟
سندھ سے تعلق رکھنے والی ٹر خواجہ سراشہزادی رائے پیپلز پارٹی کی مخصوص نشست پر کراچی میونسپل کمیٹی کا حصہ ہیں۔ شہزادی رائے کا کہنا ہے کہ ’’ 2024 کے عام انتخابات میں امید تھی کہ خواجہ سراؤں کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے مخصوص نشست دی جائے گی۔انہوں نےمزید کہا کہ’’ سیاسی جماعتیں ان کی کمیونٹی میں سے پڑھے لکھے لوگوں کو مخصوص نشست دی سکتیں تھی۔مگر ایسا ہوا نہیں‘‘،شہزادی رائے کے مطابق کراچی میں3ہزار کے قریب میل یا فی میل خواجہ سرa رجسٹرڈ ووٹ ہے اور یہ وہ خواجہ سرا ہیں جن کا xشناختی کارڈ بنا ہوا ہے۔
شہزادی رائےنے مزید کہا کہ’’انتخابات میں اپنی کمیونٹی کو یقین دہانی کروائی تھی کہ ووٹ کاسٹ کرنا کتنا ضروری ہے اگر ووٹ کاسٹ کرنے جائیں گے تو ہیہم اس سسٹم کا حصہ بنیں گے اور ہمارے مسائل حل ہو سکیں گے۔شہزادی کہتی ہیں کہ میں نے 2024کے انتخابات میں اس لیے حصہ نہیں لیا کہ لوکل گورنمنٹ میں سٹی کونسلر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہی ہوں ۔اگر لوکل گورنمنٹ کا حصہ نہ ہوتی تو ضرور حصہ لیتی ،حصہ نہ لینےکی دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ میں لوکل گورنمنٹ کے سسٹم میں کوئی مثبت کام کر سکوں ۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئندہ جنرل الیکشن میں انہیں مخصوص نشست ضرور دی جائے تاکہ وہ بھی اسمبلیوں کا حصہ بن سکیں ‘۔
2018کے انتخابات میں اسلام آبا دکے حلقہ این اے 53سے ندیم الظفر خان عرف ندیم کشش نے بطور آزاد امیدوار حصہ لیا تھا۔ندیم الظفر کا کہنا ہے کہ 2024کے انتخاب میں مالی مشکلات کی وجہ سے حصہ نہیں لیا۔قومی اسمبلی کا حلقہ بہت بڑا ہوتا ہے انتخاب لڑنے اور انتخابی مہم کے لئے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس الیکشن میں این جی او سیکٹر نے بھی ہماری مدد نہیں کی جبکہ این جی او سیکٹر نے نایا ب علی کو سپورٹ کیا۔۔نہ ہماری کوئی پارٹی ہے اور نہ کوئی سیاسی جماعت ہمیں اس قابل سمجھتی ہے کہ ہم ان کی سیاسی جماعت کا حصہ بن سکیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کی ’خواجہ سرا پارٹی‘ بھی اس لئے رجسٹرڈ نہیں ہو سکی کیونکہ ان کے پاس پارٹی کو رجسٹرڈ کروانے کے لئے فنڈز نہیں ہیں اور نہ ہی لوگ انہیں سپورٹ کر رہے ہیں۔
اگر ہم پارٹی رجسٹریشن کے قوانین کی بات کریں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق پارٹی ایکٹ 2002 کے تحت پارٹی کی رجسٹریشن کے لئے 25فنڈنگ ممبرز ہونے چاہیے۔21سال سے زیادہ عمر اور صرف پاکستان کی شہریت ہونی چاہیے۔ پارٹی کا مشور ،نام اور علامت (نشان) وہ ہونا چاہیے جو پہلے نہ استعمال ہوا ہو۔نئی پارٹی کی رجسٹریشن فیس 1لاکھ جمع کروانی ہوگی۔ عالمگیر خان عرف ماریہ 2024کے انتخابات کا حصہ نہ ببنے کی ایک وجہ سیکورٹی رسک بتا تی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ کیا تو انہیں دھمکیاں ملیں کہ الیکشن میں حصہ نہ لیں یہی وجہ تھی کہ وہ الیکشن کا حصہ نہیں بنیں۔انہوں نے مزید کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ عالمگیر خان عرف ماریہ نے 2018کا الیکشن مانسہرہ سے لڑا تھا۔
صائمہ شوکت کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں خواجہ سرا کے لئے الیکشن لڑنا کوئی آسان کام نہیں انہوں نے بتایا کہ 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں اتنے پیسے نہیں لگے تھے ان کی انتخابی مہم کے بینرز اور پوسٹر تو خواجہ سرا کیمونٹی اور حلقے کے لوگوں نے لگاوا دئے تھے ۔ کیونکہ پہلے اتنی مہنگائی نہیں تھی سب کام آسانی سے ہو جاتے تھے ۔2024الیکشن میں یہ خرچ کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس بار تو مجھ لگ پتہ گیا ۔ اگر میں سب اخراجات کو جمع کروں تو ایک لاکھ سے زائد کی رقم خرچ ہوئی مگر و ہ بھی صوبائی اسمبلی کے پورے حلقہ میں مہم نہیں چل سکی پوسٹرز اور بینرز صرف میرے علاقہ میں ہی لگ سکے‘۔انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی اسمبلی کے الیکشن کےلئے تو بہت پیسے کی ضرورت ہوتی ہے بہت بڑا حلقہ ہوتاہے اس لیے انہوں نے کوئی ریلی بھی نہیں نکالی۔ اورسب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ’میری کسی نے این جی او نے بھی مدد نےکی بلکہ میری مدد میرے اپنے لوگوں نے کی‘۔
کیا یہ مسئلہ مخصوص نشست سے حل ہو سکتا ہے؟
خواتین کی جنرل نشستوں پر ٹکٹ کوٹہ کی بات کریں تو الیکشن ایکٹ2017 کے سیکشن نمبر206کے مطابق تمام سیاسی جماعتیں کل امیدوارں میں سے 5فیصد ٹکٹیں خواتین کو دیں گی۔قومی اسمبلی کی 266نشستوں پر اگر ایک سیاسی جماعت 266امیدوار کو ٹکٹ دیتی ہے تو وہ سیاسی جماعت 13.3ٹکٹیں خواتین میں تقسیم کرے گی۔ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ ’’ خواجہ سرا کمیونٹی جس طرح اپنے مسائل کے بارے میں بات کر سکتی ہے شاید ہی دوسری کمیونٹی کے لوگ ان کو سمجھ سکیں ۔اگر وہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوں گے تو کمیونٹی کے ایشوز کو عوام کے سامنے بہتر طور پر لا سکتےہیں تاکہ کوئی قانون یا پالیسی بنانی ہیں تو اس میں اپنی کمیونٹی کے طرف سےرائےدے سکتے ہیں‘۔
فرازنہ باری کا کہنا ہے کہ وہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی حمایت کرتی ہیں کہ اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی ہونی چاہیے۔قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ ساتھ سینیٹ میں بھی ان کی ایک نشست ضرور ہو نی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے لئے ایک سسٹم کے تحت نشستیں دی جا سکتی ہیں تو خواجہ سراؤں کمیونٹی کے لئے بھی سسٹم بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔
شہزادی رائے کا کہنا ہے کہ ’ہماری کچھ امیدیں تھی اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات ہو رہی تھی کہ ہمیں مخصوص نشست دی جائےگی، کیونکہ جب ہم بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو ہمیں زیادہ ووٹ کاسٹ نہیں ہوتے۔جب سے فافن کی طرف سے خواجہ سراؤں کے لئے مخصوص نشستوں کے بارے میں معاملے کو منظر عام لایا گیا ہےتو ہمیں امید تھی کہ خواجہ سراؤں کو مخصوص نشست ملے گی۔دو سال پہلے ہم نے سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کی تھی،تو اس کے بعد سندھ میں بلدیارتی انتخابات کے بعد مخصوص نشستیں ملیں۔خواجہ سرا کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی اگر ایسی کوئی قانون سازی ہو جائے تو یہ طبقہ بھی بڑے ایوانوں میں بیٹھ سکے گا۔ حالیہ برسوں میں صورتحال میں بہتری آ رہی ہے، زیادہ خواجہ سراافراد سیاست اور وکالت کے شعبے میں شامل ہو رہے ہیں۔ تاہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے کہ خواجہ سرا لوگوں کو معاشرے کے تمام پہلوؤں بشمول انتخابی عمل میں مکمل طور پر حصہ لینے کے مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہوں‘۔