پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اسلام آباد میں ناکام جلسے کے بعد اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے سنگجانی کے مقام پر ہونے والے جلسے کے بارے میں جس طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ سچ ثابت ہوئے، پی ٹی آئی کے بانی اور اس کے کارکنوں کی سوچ انتشار پرمبنی ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرکے ملک دشمن قوتوں کو خوش کیا جائے۔ اسلام آباد میں سنگجانی کے مقام پر ہونے والے جلسے کےحوالے سے مقامی انتظامیہ نے این او سی جاری کرتے ہوئے واضح ہدایات بھی دی تھیں کہ جلسہ اپنے مقررہ وقت پر شروع ہوگا اور مقررہ وقت پر ختم ہوگا۔
جلسے میں پہنچنے کیلئے باقاعدہ روٹس بھی متعین کئے گئے تھے اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ جلسے میں کوئی شرپسندی نہیں ہوگی لیکن 26 نمبر چونگی پر جلسے میں آنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے جاری کردہ روٹ کی خلاف ورزی کی گئی۔ پولیس کے روکنے پر جلسے کے شرکاء نے پتھراؤ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے پولیس موبائل اور پولیس وین پر بھی حملہ کیا ۔ پی ٹی آئی کارکنوں کے پتھراؤ سے متعدد پولیس اہلکار جن میں ایس ایس پی سیف سٹی شامل ہیں بھی زخمی ہوگئے۔
اس سے قبل یہ خبر بھی میڈیا میں آچکی تھی کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی سرپرستی میں شرپسند عناصر جن میں افغان شرپسندوں کی بڑی تعداد شامل ہے جلسے کی جانب آرہے ہیں، جو اسلحہ اور دیگر شرپسندی کے سامان سے لیس ہیں۔
یاد رہے کہ مقامی انتظامیہ نے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ جلسے کی وجہ سے کسی کو امن و امن کی صورتحال خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس حوالے سے مقامی انتظامیہ نے اسلام آباد میں قائم افغان بستیوں کی جیوفنسنگ کا عمل بھی مکمل کیا تھا جبکہ مقامی پی ٹی آئی قیادت کی بھی کڑی نگرانی کی تھی۔
دراصل پی ٹی آئی کا جلسہ کیونکہ ایک فلاپ شو تھا ہزار کوشش کے باوجود یہ بندے اکٹھے کرنے میں ناکام رہے اور سیف سٹی کے مطابق ٹوٹل 12 ہزار بندا اِکھٹا کرسکے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جلسہ پنجاب میں ہونا تھا مگر لوگ خیبرپختونخوا سے اکٹھے کرکے لائے جا رہے تھے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب ان کی وفاق اور پنجاب کی سطح پر اکثریت ختم ہو چکی ہے لوگ ان کے شرپسندی کے بیانیہ کی حمایت سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
اب جبکہ جلسہ فلاپ شو ثابت ہو رہا تھا تو انہوں نے پولیس پر پتھراؤ کرکے امن و امان کی صورتحال خراب کرکے منفی پروپگینڈے کا آغاز کرنا ہے کہ ہمیں روکا گیا ہمارے پر شیلنگ کی گئی حالانکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ شرپسند عناصر شہر کا امن تباہ کریں- طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کریں اور مقامی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔
جلسے میں بد نظمی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی غلط حرکات کی وجہ سے ہوئی، جب انہیں معلوم تھا کہ جلسے کا وقت متعین ہے باقاعدہ روٹس بھی دیئے گئے تھے تو پھر یہ 2:30 پر تاخیر سے کیوں نکلا اور روٹ تبدیل کیوں کیا؟ پولیس کی جانب سے شیلنگ کا آغاز اس وقت کیا گیا جب انہیں پرامن طور پرصحیح روٹ اپنانے کیلئے کہا گیا اور انہوں نے پولیس اہلکاروں پر پھترائو شروع کردیا
ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ پی ٹی آئی انتشاری ذہنیت کی جماعت ہے اور اس کی کوشش ملک کا امن تباہ کرنے کی ہوتی ہے آج بھی ان کی جانب سے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ۔ انہوں نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ جلسہ ایک فلاپ شو ثابت ہو چکا تھا اور اب انہیں اپنا چہرہ چھپانے اور اپنی شرمندگی کو چھپانے کیلئے کچھ اسی طرح کا کام درکار تھے جو ان کی عادت میں شامل ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صبح سے لیکر شام تک تمام معاملات ٹھیک چل رہے تھے جب جلسہ ناکامی سے دوچار ہوا، لوگ اکٹھے نہیں ہوسکے تو پھر یہ ہلڑی بازی پتھراؤ کیا گیا تاکہ معاملات کو 9 مئی کی طرح خراب کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کئے جائیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما جنہوں نے اس بات کی ذمہ داری لی تھی کہ وہ امن و عامہ کو خراب نہیں ہونے دینگے وہ کہاں تھے۔۔۔؟ اس طرح کی بھونڈی حرکات سے یہ لوگ ملک میں انارکی پھیلا کر دشمن قوتوں کے ایجینڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہتے ہیں مگر حکومت کی جانب سے جس طرح کے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ قابل تعریف ہے۔
علی امین گنڈا پور کی طرف سے کی جانے والی ہرزہ سرائی کی جتنی مذمت بھی کی جائے کم ہے، ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ اداروں، خواتین کے خلاف حُرافات بکتا رہا جس پر اُسے اور اسکی پارٹی کو شرم آنی چاہیے۔