بانی پی ٹی آئی کے جیل میں جانے کے بعد سب سے پہلا نقصان پی ٹی آئی کو جو ہوا وہ اس میں تقسیم کے عمل کا شروع ہونا تھا اور اب یہ تقسیم کا عمل پارٹی میں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کی جانب بڑھ چکا ہے۔ ہر دوسرا پی ٹی آئی رہنما خود کو بانی پی ٹی آئی کے قریب سمجھتا ہے- جو بھی بانی پی ٹی آئی سے جیل میں مل کر آتا ہے وہ میڈیا کے سامنے خود ساختہ باتیں کر دیتا ہے۔
بظاہر لگ رہا تھا کہ پارٹی کے اندر قبضے کی جنگ شیر افضل مروت، گوہر خان، عمر ایوب خان، شبلی فراز وغیرہ کے درمیان جاری ہے، کچھ حد تک اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے مگر سیاسی مبصرین کے مطابق گو کہ علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کے درمیان اختلافات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اورحقائق سے یہ نظر آرہا ہے کہ علیمہ خان اب پی ٹی آئی کی قیادت سنبھالنا چاہتی ہیں یعنی پارٹی پر قبضے کی جنگ اصل میں علیمہ خان اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان ہے- جس سے پارٹی کا شیرازہ مزید بکھرتا نظر آرہا ہے۔
بانی پی ٹی آئی اور علیمہ خان کے حوالے سے تو سیاسی تجزیہ کار بھی اب کھل کر بات کر رہے ہیں اور مثالوں کے ساتھ ثابت کر رہے ہیں کہ بہن بھائی کے درمیان بظاہر سب ٹھیک نظر آنے والا حقیقتاً مختلف ہے - علیمہ خان بانی پی ٹی آئی کی قید کو استعمال کرنا چاہتی ہے - علیمہ خان اب پارٹی پر قبضے کی خواہش رکھتی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کو مہرے کے طور پر استعمال کرکے اپنا نام بنانا چاہتی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اسلام آباد کے علاقے ترنول میں جلسے کی منسوخی اس کی واضح مثال ہے، جس طرح علیمہ خان جلسے کی منسوخی پر سیخ پا ہوئیں اور انہوں نے اس حوالے سے سخت بیانات بھی داغے، جو اس بات کے شواہد ہیں کہ علیمہ خان پوری طرح متحرک ہیں۔
علیمہ خان نے جلسہ منسوخ ہونے پر دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت نہیں چاہتی کہ بانی پی ٹی آئی رہا ہوسکیں۔ اپنے شدید رد عمل میں ان کا یہ بھی سوال تھا کہ اعظم سواتی کیوں صبح سویرے بانی پی ٹی آئی سے ملنے کلئے گئے۔۔؟ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی جیل سے باہر بیٹھا ہے اس نے فیصلہ کیوں نہیں کیا۔۔؟ یہ پارٹی رہنما فیصلے خود کرتے ہیں اور ان کو بانی پی ٹی آئی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی وہ پارٹی کی قیادت کے فیصلے خود کرنا چاہتی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اسی طرح اس جلسے کی منسوخ ہونے کے بعد علیمہ خان سیاسی میدان میں زیادہ متحرک نظر آئی اور اس نے خیبرپختونخوا کے دورے بھی کئے جن کے بارے میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور جو بانی پی ٹی آئی کے قریب سمجھے جاتے ہیں کو بھی بے خبر رکھا گیا انہیں تو پتہ ہی اس وقت چلا جب علمیہ خان وہاں پہنچ گئی اور اس نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو آڑے ہاتھوں لیا۔
پشاور میں علیمہ خان نے جیل کاٹنے والے اور ناراض کارکنوں سے ملاقاتیں بھی کیں جنہوں نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے حوالے سے شکایات کے انبار لگا دیئے- سیاسی تجزیہ کار ایک طرح سے علیمہ خان کے عملی سیاست میں متحرک ہونے کا اشارہ بھی دیتے ہیں- دورہ خیبرپختونخوا کے دوران علیمہ خان اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے درمیان لفظی جنگ اور سخت بیانات کا تبادلہ بھی ہوا اور سب اسے ایک گہرے اختلافات سے جوڑ رہے ہیں، علیمہ خان بانی پی ٹی آئی کے قریب کارکنوں کو ہی استعمال کرکے جماعت پر قبضے کی کوششوں میں ہیں اور یہ بات دیگر رہنماؤں کو ہضم نہیں ہو رہی ہے کیونکہ علیمہ خان بانی پی ٹی آئی کی بہن ہیں اس لئے ان کیخلاف سوشل میڈیا ٹرولنگ بھی نہیں کی جاسکتی۔
گزشتہ چند دنوں کے درمیان علیمہ خان کے پارٹی ترجمان رؤف حسن کے ساتھ واٹس ایپ پیغامات بھی سیاسی تجزیہ کاروں کی نظر میں واضح اشارہ ہیں کہ علیمہ خان اب تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہیں - ان تمام عوامل کی وجہ سے اب پی ٹی آئی میں قبضے کی جنگ تیز ہوتی نظر آتی ہے اور حیران کن بات یہ بھی ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور دیگر رہنما اختلافات کی خبروں کو من گھڑت قرار دیتے ہیں مگر ساتھ ہی سابق صدر عارف علوی کی زیر قیادت ایک کمیٹی بھی بھی بناتے ہیں تاکہ پارٹی کے اندرونی اختلافات کو ختم کیا جاسکے۔ جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ اور انتشار پایا جاتا ہے۔