برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ تمام تر چیزوں کےجائزے میں 'واضح خطرہ' پایا گیا کہ برطانیہ کے ہتھیار انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں استعمال ہوسکتے ہیں، اس بنیاد پر اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے کے 30 لائسنس معطل کر دیئے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کو کچھ ہتھیاروں کی برآمدات معطل کر رہی ہے کیونکہ اس بات کا خطرہ ہے کہ انہیں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ڈیوڈ لیمی کا کہنا ہے کہ "واضح خطرہ" ہے کہ کچھ آئٹمز کو بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی کے ارتکاب یا سہولت کاری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہےیہ فیصلہ اسرائیل کو 350 میں سے 30 کے قریب برآمدی لائسنسوں سے متعلق ہے، اور یہ اسلحہ کی پابندی نہیں تھی،ہم اس فیصلے کو ہلکے سے نہیں لیتے۔
برطانوی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ بعض ہتھیار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں استعمال ہونے کا خدشہ تھا، ایسی اشیا کی فروخت روک دی ہے جو غزہ میں استعمال ہوسکتی تھیں، ممنوعہ اشیا کی فہرست میں طیاروں اور ڈرونز کے پرزے بھی شامل ہیں، یہ فیصلہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت پر مکمل پابندی نہیں ہے، ہمارے اقدامات سے اسرائیلی کی سیکیورٹی پر اثر نہیں پڑے گا، ایف 35 طیاروں کے پرزے پابندی کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ برطانیہ اسرائیل کے ان کئی دیرینہ اتحادیوں میں شامل ہے جن کی حکومتوں پر غزہ میں 11 ماہ پرانی جنگ کی وجہ سے ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے،برطانوی کمپنیاں نسبتاً کم مقدار میں ہتھیار اور پرزے اسرائیل کو فروخت کرتی ہیں اس سال کے شروع میں حکومت نے کہا تھا کہ 2022 میں اسرائیل کو فوجی برآمدات 42 ملین پاؤنڈ ($ 53 ملین) تھیں۔
جولائی میں منتخب ہونے والی برطانیہ کی سینٹر لیفٹ لیبر حکومت کو اپنے ہی کچھ اراکین اور قانون سازوں کے دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ تشدد کو روکنے کے لیے اسرائیل پر مزید دباؤ ڈالے، اپنے قدامت پسند پیشرو کے موقف سے علیحدگی میں وزیر اعظم کیئر سٹارمر کی حکومت نے جولائی میں کہا تھا کہ برطانیہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ کی درخواست میں مداخلت نہیں کرے گا۔