سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف عدالت عظمیٰ میں درخواستوں پر سماعت کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔ صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے ایکٹ کی مخالفت میں دلائل مکمل کرلئے۔ مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ ق کے وکلاء کے دلائل بھی پورے ہوگئے۔ جماعت اسلامی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی حمایت کردی۔ ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کل دلائل دیں گے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے جبکہ سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری کی جانب سے دلائل جاری ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ نہ ختم ہونے والا کیس ہے تو ایسا نہیں، یہ اس کیس کا آخری دن ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار کے دلائل شروع
صدر سپریم کورٹ بار نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز صرف سپریم کورٹ بنا سکتی ہے، آئین میں درج ’سبجیکٹ ٹو لاء ‘ کا یہ مطلب نہیں پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے، اس معاملے پر الگ قانون سازی اختیارات سے تجاوز ہوگا، آئین پارلیمنٹ کو اس معاملے پر قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ کیا آئینی اختیارات سے سپریم کورٹ رولز بنا لے تو بعد میں کوئی قانون سازی بدل سکتی ہے؟ ، جس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ ان کے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں رہ جاتا۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں نئی قانون سازی نہیں ہوسکتی،آپ کے مطابق سپریم کورٹ پہلے سے موجود قانون کے مطابق ہی رولز بنا سکتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ ہم ’ سبجیکٹ ٹو لاء ‘ کا لفظ کاٹ دیں فرق کیا پڑے گا ؟ ، عابد زبیری نے بتایا کہ فرق نہیں پڑے گا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فرق نہیں پڑے گا نا، تھینک یو، اگلے پوائنٹ پر چلیں۔
ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں، چیف جسٹس
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ نیو جرسی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، نیو جرسی کورٹ فیصلے کی نظیر دے رہے ہیں، ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں، آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ تو فیصلہ بھی نہیں، وکلا کے دلائل ہیں۔
چیف جسٹس اضافی کاغذات جمع کرانے پر برہم
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اضافی کاغذات جمع کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کہا تھا یہ پہلے دائر کردینا اب کاغذ آ رہے ہیں، کیا ایسے نظام عدل چلے گا کیا دنیا میں ایسے ہوتا ہے؟، مغرب کی مثالیں آپ دیتے ہیں کیا وہاں یہ ہوتا ہے؟ ، آپ جیسے سینئر وکیل سے ایسی توقع نہیں ہوتی، ہمارا لیول اتنا تو کم نہ کریں۔
آرٹیکل 142 میں بھی قانون سازی کو آئین سے مشروط کیا گیا
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 142 میں بھی قانون سازی کو آئین سے مشروط کیا گیا ہے جس پر وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ آئین میں پہلے سے موجود شقوں سے ہی مشروط کیا گیا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمیشہ ہوتا یہی ہے پہلے ایکٹ بنتا ہے پھر رولز بنتے ہیں، رولز، آئین و قانون کیخلاف ہوں تو کالعدم ہوجاتے ہیں۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیو جرسی کی عدالت میں کہا گیا قانون سازی کرنے اور رولز بنانےمیں فرق ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 175 دو کو آرٹیکل 191 کے ساتھ ملا کر پڑھیں، آرٹیکل 175 دو کسی بھی عدالت کے مقدمات کو سننے کا اختیار بتاتا ہے۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز بنانے کے اختیار سے متعلق آئینی شق کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا۔
آئینی شقوں پر دلائل دیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ یہ مقدمہ سن رہی ہے تا کہ وکلا سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں، آئینی شقوں پر دلائل دیں جبکہ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے، آئین کے کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ ان اختیارات کی حدود واضح کرتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی نہ ہی رولز بنانے کیلئےقانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں ردو بدل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کےپاس ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ خلاف آئین کوئی رولز بنائے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کی حدود میں رہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بھی ضابطہ آئین سے متصادم ہوگا تو وہ خود کالعدم ہو جائے گا۔
چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں سوال واضح کر دیتا ہوں، جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل رولز سے متعلق آئین میں لکھا ہے کہ آئینی باڈیز خود قانون بنائیں گی، سپریم کورٹ کے ضابطوں سےمتعلق آرٹیکل 191 میں لکھا ہے کہ قانون سے بھی بن سکتے ہیں، سوال یہ ہے کہ آئین سازوں نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا؟۔
آرٹیکل 191
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 191 رولز بنانے کا محض دائرہ اختیار طے کرتا ہے یا پاور دیتا ہے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی پاور دیتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، اگرآئین سازوں نے مکمل اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح طور پر لکھ دیتے۔
آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں سمجھ نہیں آرہی آپ کی اس قانون پر بے چینی ہے کیا، 184/3 کے معاملے پر دنیا ہم پر انگلی اٹھائے اس سے پہلے میں اٹھاتا ہوں، اگر ہم نے غلطی کی تو ہمیں درست کرنی چاہیے، ہم نے غلطی درست نہیں کی تو کیا پارلیمنٹ کر سکتی ہے یا نہیں؟، آپ ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
عابد زبیری نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا وکیل نہیں ہوں، مجھے بطور صدر سپریم کورٹ بار نوٹس ہوا ہے۔
جسٹس مظاہرنقوی نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ رولز پر پارلیمنٹ نے پابندی لگائی ہائیکورٹ اور شرعی عدالت کے ضابطوں پرکیوں نہیں؟، جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹس اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کے لیے خود با اختیار ہے۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اگر آج بھی سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنا لے تو کوئی اعتراض نہیں اٹھا سکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ابھی تک اپنے دلائل سے پہلی رکاوٹ ہی عبور نہیں کی، آپ بتا نہیں سکے قانون سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا، سپریم کورٹ انصاف تک رسائی نہ دے رہی ہو تو کیا پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرسکتی؟، چیف جسٹس ایسے ہی کیسزاٹھا تے رہیں جبری گمشدگیوں جیسے مقدمات نہ اٹھائیں کیا اس پرقانون سازی بھی نہ ہو؟۔
آرٹیکل 184/3 کا درست استعمال ہوا یا غلط؟
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے میرے سوال کا جواب بھی نہیں دیا، کیا پاکستان میں آرٹیکل 184/3 کا درست استعمال ہوا یا غلط؟ ، آپ جواب نہیں دے رہے تو لکھ دوں گا آپ نے جواب نہیں دیا۔
عابد زبیری نے کہا کہ میرا جواب ہے کہ درست استعمال بھی ہوا غلط بھی ہوا۔
184 تین کا استعمال کیسے ہوا؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان میں 184 تین کا استعمال کیسے ہوا؟ ، کیا ہیومن رائٹس سیل کا آئین یا سپریم کورٹ رولز میں تذکرہ ہے؟ ، آرٹیکل 184 تھری سے متعلق ماضی کیا رہا؟۔
قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یا تو کہہ دیتے کہ 184 تین میں ہیومن رائٹس سیل بن سکتا تھا، اس بات پر تو آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں، آپ یہ توکہہ دیں سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے اگر غلطی کی توپارلیمنٹ اسے درست کرسکتی ہے یا نہیں؟۔
عابد زبیری نے کہا کہ اگر اپیل کا حق دینا ہے تو آئین میں ترمیم کرنا ہو گی، آئین سازوں نے 184/3 میں اپیل کا حق نہیں دیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج کوئی جج اس آرٹیکل کےتحت کہہ دے فلاں پارٹی پر پابندی ہے تو بات ختم؟، کیا اس پر نظرثانی کے علاوہ کوئی داد رسی ہونی ہی نہیں چاہیے؟، اگر کسی نے معاملے پر آگے آکر مدد کر دی ہے تو اسے کالعدم کردیں؟، آپ نے شروع میں ہی پارلیمنٹ کی نیت پر حملہ کر دیا، میری نظر میں تو پارلیمنٹ کی نیت اچھی تھی۔
پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کیا سپریم کورٹ امور میں مداخلت کا ایک نیا دروازہ کھولا جا رہا ہے؟، آئین نے بتا دیا ہوا ہے آپ کیا کر سکتے ہیں کیا نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی مریض کہیں مر رہا ہو اورمیڈیکل کی سمجھ رکھنے والا اسے مرنے دے کہ وہ ڈاکٹرنہیں ہے؟، پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی۔
جسٹس مسرت ہلالی
سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ہمیں بھی سوال کرنے کی اجازت دی جائے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اس قانون کو تسلیم کرنے سے ہم نیا راستہ نہیں کھول دیں گے؟،جس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی بالکل کل کو ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نہیں، کل کو کیا ہو گا اس کی بات میں نہیں کرنے دوں گا، ہمارے سامنے ایک مخصوص کیس ہے اس کی بات کریں۔
ہمیں اختیار کو دیکھنا ہو گا
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کیلئے دروازہ کھول دیا تو وہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی، ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سِرا نہیں ہو گا، قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے ہمیں اختیار کو دیکھنا ہو گا ، یہ نہیں ہو سکتا کہ اختیار سے باہر قانون سازی اچھی ہے تو ٹھیک ہے، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا۔
فرد واحد آ کر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پوری ہونی چاہیے، فرد واحد آ کر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تواس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟، ہم بھی مانتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسی قانون سازی کا اختیارنہیں۔
درخواست گزار عمر صادق کے وکیل کے دلائل
درخواست گزار عمر صادق کے وکیل عدنان خان نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ اس قانون کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کیا گیا ہے، آئین کے تحت انتظامی معاملات میں ڈرائیونگ سیٹ پرچیف جسٹس ہی ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا پوائنٹ کیا ہے؟۔
وکیل عدنان خان نے بتایا کہ یہ قانون ہمیں ایک ڈیڈ اینڈ کی طرف لے جا سکتا ہے، 2 سینئرجج کل بینچ میں چیف جسٹس کو رکھیں ہی نہ جبری رخصت پربھیج دیں؟، چیف جسٹس کیا پھر صرف چیمبر ورک کرے گا؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ مستقبل کی باتیں کر رہے ابھی بتائیں بنیادی حقوق کون سےمتاثرہوئے؟،جبکہ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ میں نے کیس مینیجمنٹ ایک کمیٹی کے سپرد کردیا تو کیا یہ غیر آئینی ہے؟۔
وکیل شاہد رانا
سماعت کے دوران وکیل شاہد رانا نے دلائل دیئے کہ ایکٹ کے تحت اپیل کا حق دیا گیا، اپیل تو دوسرے ججز کے پاس جانا ہوتی ہے، 15جج کیس کا فیصلہ کریں تو اپیل کہاں جائے گی؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپیل کہیں نہیں جائے گی اللہ کے پاس جائے گی۔
شاہد رانا نے موقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ میں فیصلہ دینے والے جج سے انٹراکورٹ اپیل میں مختلف ججز کیس سنتے ہیں، سپریم کورٹ میں اپیلیں آرٹیکل 185 کے تحت ہوتی ہیں، آرٹیکل 185 کے تحت اپیل اب آرٹیکل 184 میں تو نہیں ہو سکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو اس بات کا جواب فیصلے میں دے دیں گے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یہ معاملہ پہلے کبھی کیوں نہیں اٹھایا گیا؟، کیا پتہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہو، سپریم کورٹ اختیارات سے تجاوز کرے تو قانون سازی سے اسے درست نہیں کیا جاسکتا، یہاں بار کے انتخابات جیتنا مشکل ہے وہاں دو تہائی اکثریت کیلئے نمبرز پورے کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184 تھری کے دائرہ کارمیں کیے گئے تمام فیصلے درست ہیں؟۔
وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184 تھری کے تحت مفاد عامہ کے کیسز سننے چاہئیں، مفاد خاصہ کے نہیں۔
میں نے اپنا قلم ہوا میں اٹھا رکھا ہے
سماعت کے دوران ( ق ) لیگ کے وکیل نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ اپنا پوائنٹ واضح کریں میں نے اپنا قلم ہوا میں اٹھا رکھا ہے، یہ سسپنس میری جان لے رہا ہے۔
ق لیگ کے وکیل کے دلائل
مسلم لیگ ( ق ) کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کے تحت اس عدالت کے آئینی اختیارات میں کمی نہیں کی گئی، سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کا اختیار آرٹیکل 142 سے نکلتا ہے، آئین پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کے لیے کھلا اختیار بھی نہیں دیتا۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کی انٹری 55 کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ لسٹ کی انٹری 55، 59 کےساتھ آرٹیکل 191 کو دیکھیں۔
وکیل کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے انور بھنڈر کیس میں آرٹیکل 188 سےمتعلق کہا سپریم کورٹ اختیارات کم نہیں کیے جا سکتے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اسی فیصلے کے اگلے حصے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ رولز بہتری کیلئے پارلیمنٹ بدل بھی نہیں سکتی، ایک جملے پر انحصار نہ کریں پورا فیصلہ پڑھیں، جن فیصلوں کا حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ ان ضوابط سےمتعلق ہیں جنکا اختیار پہلے سے موجود قانون دیتا ہے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ این آر او فیصلہ پڑھیں وہ رولز بن جانے کے بعد کی قانون سازی کو رد کرتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا ہے کہ آپ نے جو مثالیں پیش کیں وہ الگ نوعیت کی ہیں، کسی اورعدالت کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دینا الگ بات ہے، سپریم کورٹ کے اپنے آرڈر کیخلاف اپیل کا حق دینا الگ معاملہ ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آئین میں ترمیم سادہ قانون سازی سے کیسے کی جاسکتی ہے؟۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 8 رکنی سے زیادہ بینچ بنا تو اپیل کا حق پھر بھی نہیں مل سکے گا، 7 رکنی یا کم ارکان کا بینچ بنا تو ہی اپیل کا حق ملا کرے گا۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ طے کرنے کا پیمانہ کیا ہو گا کس کیس میں اپیل کا حق رکھنا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا سادہ جواب ہے، کمیٹی 184/3 میں 8 رکنی یا بڑا بینچ نہیں بنائے گی۔
بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایک کیس فل کورٹ سن لے گی تو اپیل کی ضرورت نہیں بچے گی، سارے ججوں کو سن لینے کے بعد اپیل کی ضرورت نہیں رہتی۔
جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ سارے ججوں نے سن لیا تو اس بنیاد پر اپیل کا قانونی حق ختم کر دیں؟۔
جماعت اسلامی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی حمایت کردی، جماعت اسلامی کے وکیل سماعت کے اختتام پر عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس ایکٹ کی حمایت کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل فیصل صدیقی کل پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر اپنے دلائل دیں گے۔
عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس نے اپنے حکم نامے میں لکھوایا کہ عابد زبیری نے ایکٹ کی مخالفت میں دلائل مکمل کئے، درخواست گزار عدنان خان کے وکیل کو بھی سنا گیا، زاہد ابراہیم نے مسلم لیگ ق کی جانب سے دلائل دیئے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے وکیل صلاح الدین نے بھی دلائل مکمل کر لئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اہم سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی نمائندگی ہی موجود نہیں؟، چلیں خیر کسی کو فورس نہیں کر سکتے۔