سینیٹ کی قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں آج سماء نیوز کی خبروں کا چرچا ہوا، چیئر پرسن پلوشہ خان نے کہا کہ ایل ڈی آئی کمپنیوں سےمتعلق خبرسماء نےبریک کی، وزارت اطلاعات بتائےکہ ایل ڈی آئی کمپنیوں کوفائدہ پہنچانےکی کوشش کیوں کی گئی۔
وزیر مملکت آئی ٹی شزہ فاطمہ نے کہا کہ ایل ڈی آئی کمپنیوں کےلائسنسوں کی تجدیدنہیں کی گئی ہے،سیکریٹری کی جانب سےجاری کیا گیا نوٹیفکیشن غیرقانونی تھا،معاملہ سامنے آنے کے بعد سیکریٹری آئی ٹی کانوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا تھا۔
شزہ فاطمہ نے بتایا کہ وزیراعظم نے نوٹس لے کر 48 گھنٹے میں سیکرٹری آئی ٹی کو او ایس ڈی بنا دیا تھا،14ایل ڈی آئی کمپنیوں میں سے 9 کا لائسنس کی تجدید کا مسئلہ ہے۔ سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ لاء ڈویژن نےتوکہہ دیا کہ ان ایل ڈی آئی آپریٹرزکو لائسنس نہ دیں۔
شزہ فاطمہ نے کہا کہ عدالتیں ایل ڈی آئی کمپنیوں کولائسنسوں کی تجدید پر ریلیف دے رہی ہیں،ابھی ہم ساراالزام سیکرٹری پر نہیں ڈال سکتے،معاملہ پرتحقیقات ہورہی ہیں۔
سینیٹر انوشہ رحمٰن نے کہا کہ صرف وفاقی حکومت پالیسی ڈائریکٹو جاری کرسکتی ہے، اگرہم بھی سیکرٹری آئی ٹی کو معصوم سمجھتے ہیں تو یہ غلط ہوگا،اگرایل ڈی آئی کا معاملہ اجاگر نہ ہوتا توحکومت کا یہ بہت بڑا سکینڈل تھا،سیکرٹری نے سیکشن 8 ری آرگنائزیشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے،معاملہ کی فوری انکوائری کرکے فوری ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔
انوشہ رحمٰن نے کہا کہ 1 5 دن میں ہمیں بتایا جائےکہ اس پورےاسکینڈل کا ذمہ دارکون ہے،عدالتوں کے سٹے آرڈرز کا مسئلہ اٹارنی جنرل کے ذریعےحل کرایا جائے،چیئرمین پی ٹی اے نےسیکرٹری آئی ٹی کی ہدایات ماننےسےانکارکردیا تھا،ایل ڈی آئی معاملے پر قائمہ کمیٹی نے پی ٹی اے کو بھی طلب کرلیا۔