وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ آئین ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی اجازت دیتا ہے، میری رائے میں ایڈہاک ججز تعینات ہونے چاہئیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی مدت ملازمت میں توسیع کی خبریں درست نہیں۔
ایک انٹرویو میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ایڈہاک ججز چیف جسٹس نے نہیں جوڈیشل کمیشن نے مقرر کرنے ہیں، جوڈیشل سسٹم کی اصلاحات کیلئے آئینی ترمیم کے حق میں ہوں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی مدت ملازمت میں توسیع کی خبریں درست نہیں، اپریل کے آخر یا مئی کے اوائل میں چیف جسٹس سے جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ کے حوالے سے ملاقات ہوئی تھی، اس وقت چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، چیف جسٹس نے کہا کہ مدت ملازمت کی توسیع میں دلچسپی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت کی توسیع کی تجویز سے متفق تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ پنشن بل زیادہ ہونے کی وجہ سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت میں توسیع کی بحث نے جنم لیا، دنیا بھر میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد میں اضافہ ہوا ہے، پنشن کی مد میں حکومت کو بھاری رقم ادا کرنا پڑتی ہے، جوڈیشری سمیت تمام سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت میں توسیع کی تجویز زیر غور تھی۔ آئین میں ترمیم کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ایک جماعت کو مضبوط ہونے کا موقع دیا گیا ہے، 8 ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس میں آئین کو ری رائٹ کیا، جن ایم پی ایز کو بغیر سنے گھر بھیجا گیا وہ بھی ریویو میں آ رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں پر آرٹیکل 6 لگانے کے معاملے پر وزیر قانون نے کہا کہ تحریک انصاف تحریک عدم اعتماد پر اجلاس طلب نہیں کر رہی تھی، تحریک عدم اعتماد کیلئے اجلاس طلب کرنے کیلئے عدالت سے رجوع کیا گیا، پی ٹی آئی رہنماؤں پر آرٹیکل 6 لگانے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لایا جا سکتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی موجودگی میں اسمبلیاں تحلیل کر کے تحریک انصاف نے آئین کی خلاف ورزی کی، تحریک انصاف کے رہنمائوں پر آرٹیکل 6 کا جینوئن کیس ہے۔
وفاقی وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے بھی کہا کہ تحریک انصاف نے اسمبلیاں تحلیل کر کے غیر آئینی اقدام اٹھایا، آرٹیکل 6 کے حوالے سے پارلیمنٹ میں بحث ہو سکتی ہے، پچھلے سال پی ٹی آئی پر پابندی نہ لگانے کا فیصلہ سیاسی ماحول کو برقرار رکھنے کیلئے کیا تھا۔