بھارتی اقلیتیں ہمیشہ سے مودی سرکار کو کٹھکتی رہی ہیں جس کی بنا پر انھیں بھارتی حکومت کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
مودی سرکارکےاقتدار میں آنے کےبعدگزشتہ ایک دہائی سےبھارت میں اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں،مودی نےحالیہ انتخابات میں بھی اس بات کوواضح کردیا ہےکہ مودی بھارت کو اقلیتوں سےپاک کرکےصرف ہندوتوا ریاست کےقیام کو یقینی بنائےگا۔
بھارت میں آئے روزمودی سرکارکی جانب سےاقلیتوں پرہونے والےمظالم اس بات کی عکاسی کرتےہیں کہ”بھارت میں اقلیتوں کے لئےکوئی جگہ نہیں،انتخابات سےقبل مودی نےدیگراقلیتوں کونشانے پررکھتےہوئےمسلمانوں کے خلاف بھی شدید زہر اُگلا۔
انتہاپسندمودی سرکار نےناصرف مسلمانوں کوناسورسےتشبیہ دی بلکہ اُن کے گھروں،دکانوں حتی کہ مساجدکوبھی مسمارکردیا،بھارتی انتخابات میں مسلمان مخالف کارڈکامیابی سےکھیلنےکےبعد اب مودی سرکارعملی اقدامات پراتر اۤئی ہے۔
مودی سرکار نے بھارتی مسلمانوں،آدیواسیوں اوردلتوں کےخلاف نئےفوجداری قوانین متعارف کروادئیے،مودی سرکارکی جانب سے متعارف کروائے گئے ان فوجداری قوانین میں ”بھارتیہ نیا سنہیتیا“،”بھارتیہ ساکشیہ دھینیم“ اور”بھارتیہ نگاری سرکشہ سنہیتا شامل ہیں۔
بی این ایس،بی ایس اے اوربی این ایس ایس قوانین کااطلاق یکم جولائی سےکیا جا چکا ہےآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کےصدراسد الدین اویسی کا کہنا تھا کہ” مودی سرکارکی جانب سےنافذ کئے کئےیہ ظالمانہ قوانین اب بھارت میں مسلمانوں، دلتوں اوردیگر متوسط طبقات کے خلاف استعما ل ہونگے“
”بھارتیہ نیا سنہیتیا“”بھارتیہ ساکشیہ دھینیم اور”بھارتیہ نگاری سرکشہ سنہیتا سے کمزورطبقات کےحقوق مزید سلب کرتےہوئےبھارتی پولیس کو ان کےخلاف کارروائیوں کےلئےوسیع تر اختیارات حاصل ہو نگے۔
رکن پارلیمنٹ حیدرآبادکاکہناتھاکہ ان قوانین میں کہیں بھی اس با ت کا ذکر نہیں کیا گیاکہ”اگر بھارتی پولیس سے کوئی جرم سرزدہوجاتا ہے تواُس کےخلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جائے گی؟“۔
رکن پارلیمنٹ حیدر آباد کا کہنا ہےکہ یہ یکطرفہ قوانین ہیں، یہ نئے قوانین کے قانون سے بھی زیادہ خطرناک ہیں،سوال یہ ہے کہ آخر کب تک مودی سرکار کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف انسانی حقو ق کی تنظیمیں خاموش رہیں گی؟
کیا مودی کے اقتدار میں رہتے ہوئے بھارت کی مظلوم اقلیتوں کو کبھی انصاف ملے گا؟