اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت جمعرات ( کل ) تک ملتوی کردی۔
بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت میں اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک شواہد سے متعلق ایکسپرٹس نے عدالت پیش ہوکر بیان دیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایکسپرٹس بطور ایکسپرٹ عدالت میں پیش ہوئے یا بطور گواہ؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مریم نواز کیس میں بھی لکھا تھا جو ایکسپرٹ آتا ہے اسے اپنی خصوصیت بتانا ہوتی ہے، ایکسپرٹ نے بتانا ہے کہ وہ کس چیز کا ماہر ہے۔
پراسیکیوٹر کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی مختلف لیکڈ آڈیوز کے حوالے سے ٹیکنیکل انائلسز رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔
حامد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنیکل رپورٹ میں 9 ویڈیو بیانات ایک سی ڈی میں ہیں، ٹیکنیکل رپورٹ سائفر سیکیورٹی افسر نے تیار کی ہے، ٹیکنیکل اینالسٹ نے یہ رپورٹ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے حاصل کی ہے۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ رپورٹ تیار کرنے والے گواہ کے بیان کے مطابق آڈیولیکس اس وقت بھی مختلف پلیٹ فارمز پر موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے نے انکوائری کی ہے اس سے متعلق ایکسپرٹ نے کیا تحقیق کی ہے؟ جبکہ جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ آڈیوز آئی کہاں سے ہیں اور اس کو پوسٹ کس نے کیا ہے؟۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایک نامعلوم شخص نے یہ آڈیوز انٹرنیٹ پر اپلوڈ کی تھیں، 28 ستمبر 2022 کو ایک تصدیق شدہ اکاؤنٹ سے یہ آڈیوز اپلوڈ کی گئیں ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے میری اور آپ کی آواز بھی بنائی جاسکتی ہے، سابق چیف جسٹس کی آڈیو لیک ہوئی اور بعد میں تحقیق سے غلط نکلی۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ سائبر ونگ کے پاس یہ انفارمیشن ہوتی ہے کون اکاؤنٹ استعمال کر رہا ہے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سائفر کیس میں صرف ایک ثبوت موجود نہیں اسکے علاوہ بھی بہت سی دستاویزات ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ججمنٹ میں ہے کسی کی آڈیو ریکارڈنگ نہیں کی جاسکتی جبکہ جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے کو اس معاملے کی جڑ تک پہنچنا چاہیے جو ایک وزیراعظم تک پہنچ گیا۔
عدالت نے پراسیکیوٹر نے استفسار کیا کہ کیا آپ انٹرنیٹ پر آنے والی ہر چیز کو درست مان لیتے ہیں؟ جبکہ جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ میں تو انٹرنیٹ پر آنے والی ہر چیز کو درست تسلیم نہیں کرتا، انٹرنیٹ پر جھوٹ ہے جب تک کسی چیز کے درست ہونے کی تصدیق نہ کرلی جائے۔
جسٹس میاں گل حسن نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ آپ نے انٹرنیٹ پر آنے والی چیز پر 10،10 سال سزا دے دی؟
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اظہر نامی شخص کا ویریفائیڈ ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے جس پر آڈیو اپلوڈ کی گئی جس پر جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ کیا اس اظہر کو بلا کر پوچھا گیا؟، اس اظہر سے پوچھیں توسہی کہ اس نے وزیراعظم آفس کی آڈیو کیسے بَگ کرلی؟ ، اگربَگ کر لی تو کیا وہ اسے عدالت میں پیش کرنے کی جرات بھی کرے گا؟۔
جسٹس گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ اظہر تو بہت کام کا آدمی ہے یہ تو اثاثہ ہے اور ہو سکتا ہے، اظہر نے وزیراعظم کے گھر سے وزیر خارجہ کے ساتھ گفتگو بَگ کر کے انٹرنیٹ پر لگا دی۔
بعدازاں، عدالت عالیہ نے اپیلوں پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔