پاکستان میں سگریٹ پر ٹیکسوں میں اضافہ اور سگریٹ نوشی کے باعث پیدا ہونے والے ممکنہ صحت کے خطرات کے بارے میں آگاہی سے ملک میں سگریٹ کی فروخت میں کمی کا رجحان سامنے آیا ہے۔
یورو مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں قیمت فروخت میں ایک فیصد کمی آئی، جس کے نتیجے میں سالانہ 60 ارب سکٹس کی فروخت ہوئی جو کہ حالیہ پیش گوئی کی مدت میں مزید دو فیصد کم ہو کر 55ارب سٹکس تک کم ہوگئی ہے۔یورو مانیٹر کی رپورٹ میں مزید کہا گیاہے کہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی 2022 میں مارکیٹ میں 71 فیصد کے ریٹیل والیوم شیئر کے ساتھ سرفہرست تھی۔پاکستان میں تمباکو کی مصنوعات کی تشہیر پر پابندی اور کورونا وبا کے تناظر میں سگریٹ نوشی کرنے والے صارفین میں صحت کے ممکنہ خدشات کے بارے میں آگاہی بڑھ رہی ہے۔
فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول (FCTC) کے لیے پاکستان کی وابستگی سگریٹ کی صنعت کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے اور کھپت کی حوصلہ شکنی کے لیے یکساں قیمت کے نظام کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔عالمی ادارہ صحت بھی تمباکو کی کھپت کو کم کرنے کے لیے ٹیکس کے مضبوط اقدامات کی تجویز دے چکاہے۔تمباکو کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافے کے اثرات پر اگر بات کی جائے تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ عام طور پر زیادہ آمدنی والے ممالک میں تمباکو کی مجموعی کھپت میں 4 فیصد تک کمی اور کم آمدنی والے ممالک میں 8 فیصد تک کمی واقع ہوتی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی ایک تحقیق میں تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں اور اموات کے سنگین نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس کی لاگت 2019 میں 615.07 ارب روپے تھی، جو کہ جی ڈی پی کے 1.6 فیصد کے برابر ہے۔دریں اثنا،عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے بھی حال ہی میں سگریٹ کی تمام اقسام پر یکساں لیول کا ٹیکس نافذکرنے کی تجویز دی ہے۔پاکستان میں اس وقت سگریٹ پر دو قسم کے درجے میں ٹیکس عائد کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف سگریٹ انڈسٹری سے ٹیکس وصولی کم ہوتی ہے بلکہ پاکستان میں سالانہ 337000 اموات بھی ہوتی ہیں۔آئی ایم ایف کی سفارشات کا مقصد سگریٹ کی مصنوعات پر مساوی ٹیکس کو یقینی بنانا ہے جسے صحت سے متعلقہ افراد کی جانب سے بہت زیادہ سراہا گیاہے۔