لندن کے امپیریل کالج نے حال ہی میں تمباکو نوشی کے بارے میں ”تمباکو کا عالمی ماحولیاتی فوٹ پرنٹ“ کے عنوان سے ایک ریسرچ جاری کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک میں تمباکو کی پیداوار تشویش کا باعث بن چکی ہے اور پاکستان دنیا کے 90 فیصد سگریٹ پیدا کرنے والے 9 غریب ممالک میں شامل ہے۔
اس ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے انڈس یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر آفتاب مدنی کہتے ہیں کہ دنیا میں تمباکو کی مجموعی پیداوار کا تقریباً 90 فیصد ترقی پذیرممالک پیدا کرتے ہیں۔ تمباکو پیدا کرنے والے 10 ممالک میں سے 9 ترقی پذیر ہیں جن میں پاکستان سمیت چار ممالک کم آمدنی اور غذائی خسارے کاشکار ہونے والے ملک شامل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سگریٹ کی آسانی سے دستیابی ان لوگوں کے لیے غربت کی گہرائی میں مزید گرنے کا سبب بن رہی ہے۔ یہاں کے لوگ سگریٹ خریدنے پر جو رقم خرچ کرتے ہیں وہ خوراک اور دیگر ضروری اشیاء پر خرچ ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے کیپیٹل کالنگ کی جانب سے کہا گیاہے کہ ملک پاکستان میں تمباکو پر ٹیکس لگانے کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی تجاویز پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کے زیرانتظام ایک معروف تحقیقی ادارے (پی آئی ڈی ای) کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ملک میں 24 ملین افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ پاکستان میں 2019 کے دوران تمباکو نوشی سے متعلقہ بیماریوں اور اموات پر آنے والی کل لاگت 615.07 بلین روپے (3.85 بلین ڈالر) ہے، اور بالواسطہ اخراجات ان کا مجموعی طورپر 70 فیصد بنتے ہیں۔
تمباکو نوشی سے منسوب لاگت جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے، جب کہ کینسر، امراض قلب اور سانس کی بیماریوں کے سگریٹ نوشی سے ہونے والے اخراجات جی ڈی پی کا 1.15 فیصد ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق 337500 پاکستانی سگریٹ نوشی کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔یہ اعدادوشمار حکومت کے لیے تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانے کے لیے کافی ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کو گزشتہ 7 سالوں میں صرف دو ملٹی نیشنل سگریٹ کمپنیوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ٹیکس ریونیو کی مد میں 567 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔