غیر قانونی تارکین وطن کو روانڈا بھیجنے کے لیے برطانوی حکومت کے ایک متنازعہ بل کو بالآخر پارلیمان کے ایوانِ بالا کی منظوری مل گئی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق غیر قانونی تارکین کو روانڈا بھیجنے کے حوالے سے برطانوی حکومت کے ایک متنازعہ بل کو بالآخر پارلیمان کے ایوانِ بالا نے منظور کر لیا ہے، اس سے قبل برطانوی حکومت کے بل میں متعدد ترامیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
برطانوی وزیر اعظم رشی سنک کو امید ہے کہ قانون سازی اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات میں ان کی کنزرویٹو پارٹی کے لئے فائدہ مند ہوگی۔
سنک کا نیوز بریفنگ کے دوران کہنا تھا ’ کوئی اگر مگر نہیں ‘ ، حکومت نے تارکین وطن کو روانڈا لے جانے کے لیے کمرشل چارٹر ہوائی جہاز اور تربیت یافتہ عملے کی بکنگ کی ہے اور پہلی پرواز جولائی میں روانڈا روانہ ہوگی۔
روانڈا اسکیم، جسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین اور پناہ گزینوں کی حمایت کرنے والے گروپوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، اس وقت سے قانونی چیلنجر کا شکار ہے جب سے اسے چھوٹی کشتیوں میں انگلش چینل کو عبور کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کو روکنے کے لیے پہلی بار تجویز کیا گیا تھا۔
جون 2022 میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے حکم امتناعی کے بعد آخری لمحات میں پہلے ڈی پورٹیز کو پرواز سے اتار دیا گیا تھا اور اگلے سال برطانیہ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ تارکین وطن کو یک طرفہ ٹکٹ پر کیگالی بھیجنا غیر قانونی ہے اور اس سے وہ خطرے میں پڑ جائیں گے۔
نیشنل آڈٹ آفس کے مطابق 300 پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے لیے برطانیہ کو تقریباً 540 ملین پاؤنڈ خرچ کرنا ہوں گے۔
ہاؤس آف لارڈز نے تازہ ترین بل کو ناکافی قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور اس میں ترامیم کا مطالبہ کیا جن میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ روانڈا کو اس وقت تک محفوظ نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ ایک آزاد مانیٹرنگ باڈی اسے درست ثابت نہ کرے۔
تاہم، آخر میں لارڈز نے بل کو بغیر کسی رسمی تبدیلی کے پاس ہونے دیا جس کے بعد اس قانون کو اس ہفتے کے آخر میں کنگ چارلس سے شاہی منظوری ملنے کی توقع ہے اور پھر یہ قانون بن جائے گا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو گھر پر ہینڈل کرنے کے بجائے روانڈا بھیجنے کا منصوبہ غیر انسانی ہے۔
آسٹریا اور جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک بھی تارکین وطن کو تیسرے ممالک میں پروسیس کرنے کے معاہدوں پر غور کر رہے ہیں۔