تحریر : محمد اکرم چوہدری
پاکستان کے لوگوں کو برا بھلا تو بہت کہا جاتا ہے ٹھیک ہے کہتے رہیں لیکن کبھی ان کے مسائل اور مشکلات کا بھی کسی کو احساس ہونا چاہیے۔ قوم کو آج تک وہ قیادت ملی ہی نہیں جو ان کروڑوں انسانوں کی درست سمت رہنمائی کر سکے۔ قوم کو آج تک وہ قیادت نہیں ملی جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔وہ قیادت نہیں ملی جو جلسوں میں لگنے والے نعروں اور وعدوں پر عمل کرنے کے لیے بند کمروں میں وہی حکمت عملی اختیار کرتی ہو۔ قوم کو وہ قیادت نہیں ملی جو مذہبی اعتبار سے مضبوط ہو اور سیاسی اعتبار سے بہت دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یہاں مذہب کے نام پر سیاست ہوتی ہے اور سیاسی قیادت سیاسی میدان میں دین کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہے۔ اگر قرآن کریم کے احکامات سیاست کی بنیاد ہوں تو کوئی بھی وعدہ خلافی کیسے کر سکتا ہے، جھوٹ کیسے بول سکتا ہے، خیانت کیسے کر سکتا ہے، لوٹ مار کیسے کر سکتا ہے، چوری کیسے کر سکتا ہے، غلط بیانی کیسے کر سکتا ہے، عہدے کا ناجائز استعمال کیسے کر سکتا ہے، اقتدار کو طول دینے کے لیے ناجائز راستہ کیسے اختیار کر سکتا ہے، ہم آج بھی قیادت کے بحران کا شکار ہیں۔ سیاسی قیادت نئے لوگوں کو آگے آنے کا موقع نہیں دیتی ، لوگوں کو ایک مخصوص حد تک آزادی دینے کی حکمت عملی ذہنی آزادی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے، یہی حال ہر شعبہ زندگی کا ہے، لوگ ملک چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں، نوجوان مستقبل سے مایوس ہو کر دیار غیر میں کم درجے کے کام کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ہر وقت یہاں سے بھاگنے کے چکر میں لگے رہتے ہیں ۔ کوئی اس طرف توجہ نہیں دیتا کہ اپنے نوجوانوں کو کیسے ملک سے جوڑنا ہے۔ ہم جو برین ڈرین کا شکار ہیں اس سے کیسے نکلنا ہے ۔ پاکستان کے نمایاں مقررین و مفکرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ملک کی نوجوان نسل کی رہنمائی کریں۔ قوم کے نوجوانوں کو بیدار کریں انہیں آگے بڑھنے کا راستہ دیں ، ان کی فکری صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے کام کریں ۔ نوجوانوں کے جذبات کو ابھارنے کے بجائے تخلیقی صلاحیتوں کو بلند کرنے، متحد ہو کر ملک و قوم کی ترقی کے لیے کام کرنا کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کریں۔ نوجوانوں کو زندگی کی طرف واپس لائیں، انہیں تحمل، احساس اور برداشت پیدا کرنے کے لیے کام کریں۔
میرے پاس ملک و قوم کی خدمت کا جو بھی ذریعہ ہو، روشنی دکھانے، متحد کرنے اور آگے بڑھنے کا جو بھی راستہ ہو اسے قوم کو دکھانا چاہیے۔ اگر میں یہ کام نہ کروں تو مجرم ہوں، میں نے اپنی صلاحیتوں سے انصاف نہیں کیا اور جو ذمہ داری مجھے ملی اس کو نبھانے میں ناکام رہا۔ میں کم از کم اپنی سطح پر رہتے ہوئے تو وہ کام کر سکتا ہوں ۔ گذشتہ کئی برسوں سے یہ ذمہ داری نبھا رہا ہوں۔ آج بھی وہ مقررین و مفکرین جنہیں لوگ پسند کرتے ہیں، سنتے ہیں، سننا چاہتے ہیں، ان کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں ان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کم از کم اور کچھ نہیں تو روزانہ نوے سیکنڈز کا ایک پیغام ضرور اس ملک کے نوجوانوں کو دیں۔ ایسا پیغام جو نوجوانوں کی زندگیوں میں بجلیاں بھر دے، ایسا پیغام جو انہیں اندھیروں میں روشنی دکھائے۔ یہ کام مستقل مزاجی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم کو زندہ کرنا ہے، مروانا نہیں ہے، متحد کرنا ہے تقسیم نہیں کرنا، شعور دینا ہے بدتمیز نہیں کرنا، سرکش نہیں بنانا، قوانین کی پابندی سکھانی ہے۔ وہ مقررین و مفکرین جنہیں پسند کیا جاتا ہے اگر وہ بھی خاموش ہو جائیں، ہمت ہار جائیں یا گھر بیٹھ جائیں تو اضطرابی کیفیت میں مبتلا نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو گا۔ آنے والی نسلوں کو بہتر پاکستان دینا ہماری ذمہ داری ہے ۔
ان مقررین و مفکرین کو بھی ملک و قوم اور اس ملک کے کروڑوں نوجوانوں کی خاطر متحد ہونا پڑے گا۔ الگ الگ آوازیں تقسیم کا باعث ہیں یہ تو سب جانتے ہیں کہ اس ملک کا مسئلہ کیا ہے۔ سب اپنے اپنے انداز میں ایک جیسی بات بھی کر رہے ہوتے ہیں تو کیوں متحد ہو کر نوجوانوں کی درست رہنمائی نہیں کر سکتے ۔ مجھے یقین ہے اس ملک کا نوجوان مسائل حل کر سکتا ہے۔ اس میں صلاحیت ہے، اس میں جان ہے، اس کی صلاحیتوں کو درست استعمال کرنا ہے اسے جگانا ہے، متحرک و متحد کرنا ہے۔ آزادی کی قدر کو اجاگر کرنا ہے، اس کی اہمیت کو بیان کرنا ہے۔
سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ سچ بولنا شروع کرے، غلطیاں تسلیم کرے، اصلاح کی طرف جائے، ناراض لوگوں کو منائے، انہیں قومی دھارے میں شامل کرے، مخالفین کی عزت کرے، انہیں مزید مخالف بنانے کے بجائے مخالفت کی شدت کو کم کرنے پر توجہ دے۔ سیاسی قیادت نوجوانوں سے براہ راست بات چیت کرے، ان کے درد کو محسوس کرے، مسائل حل کرنے کی طرف بڑھے ، نفرتوں سے آگے نہیں بڑھا جا سکتا ۔ حالات جس نہج پرہیں یہاں غیر روایتی کام کرنے کی ضرورت ہے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ معمولی اقدامات سے کام بن جائے گا تو یہ ذرا مشکل ہے۔ حالات کی سنگینی کو سمجھیں اور اسی حوالے سے اقدامات کریں۔
آخر میں ابن انشاء کا کلام
فرض کرو ، ہم اہل وفا ہوں ، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو ، یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں
فرض کرو ، یہ جی کی بپتا ، جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی ، آدھی ہم نے چھپائی ہو
فرض کروتمہیںخوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو ، یہ نین تمہارے سچ مچ کے میخانے ہوں
فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا ، جھوٹی پیت ہماری ہو
فرض کرو اس پیت کیروگ میںسانس بھی ہم پر بھاری ہو
فرض کرو ، یہ جوگ بجوگ ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو ، بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو
دیکھ میری جان کہہ گئے باہو،کون دلوں کی جانے‘‘ہو‘‘
بستی بستی صحرا صحرا ، لاکھوں کریں دیوانے ‘‘ہو‘‘
جوگی بھی جو نگر نگر میں مارے مارے پھرتے ہیں
کاسہ لئے ، بھبوت رمائے ، سب کے دوارے پھرتے ہیں
شاعر بھی جو ، میٹھی بانی بول من کو ہرتے ہیں
بنجارے جو اونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں
ان میں سچے موتی بھی ہیں، ان میں کنکر پتھر بھی
ان میں اتھلے پانی بھی ہیں، ان میں گہرے ساگر بھی
گوری دیکھ کے آگے بڑھنا ، سب کا جھوٹا سچا ، ہو
ڈوبنے والی ڈوب گئی وہ گھڑا تھا جس کا کچا ، ہو