پی ٹی آئی کے علاوہ تمام پانچوں اتحادی جماعتوں کے پاس پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اوراپوزیشن اتحاد کے پاس کوئی قابل ذکر سیاسی طاقت نہیں ہے جو موجودہ حکومت کو سنجیدہ چیلنج دےسکے ،پارلیمنٹ میں کیے گئے سیاسی فیصلوں کا اثر ہوتا ہے لیکن جلوس/سڑکوں کے اجتماعات محض ایک عام سیاسی سرگرمی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سیاسی جماعت کے طور پر پی ٹی آئی کی کمزوری اس طرح بے نقاب ہوئی ہے کہ پاکستان کی ایک بڑی جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی بہت چھوٹی کم مقبول جماعتوں سے مدد مانگ رہی ہے۔ اب تک کوئی بھی مرکزی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی نہیں ہے۔محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، شیر افضل مروت، اور عمر ایوب خان کے ریاست مخالف اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے ان کی سیاسی موقع پرستی اور اپنے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں۔ملک کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر یہ رہنما سیاست میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور غیر ضروری طور پر مرکزی حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی اپنے مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ملک کی غیر مستحکم سیاسی اور معاشی صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
پشین سے اپنا احتجاج شروع کرنے والی اپوزیشن کا مقصد بلوچستان کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنا ہے جو پہلے ہی بلوچ قوم پرستوں کی قیادت میں تحریکوں کی زد میں ہے۔بلوچستان کو پاکستان کا سب سے پسماندہ خطہ قرار دے کر، اپوزیشن جماعتیں سیاسی مقاصد کے لیے عوام کے جذبات کا استحصال کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔متذکرہ سیاست دانوں کی منفی ایجنڈا پر مبنی سیاست متوازن رائے سازوں کی نظروں میں واضح طور پر بے نقاب ہو چکی ہے اور وہ ان کے منفی طرز سیاست سے مزید بے نقاب ہوں گے۔