مارکیٹ میں پیسے کی گردش کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑے نوٹوں کا اجراء کیا جاتا ہے۔
مارکیٹ میں پانچ ہزار روپے کا کرنسی نوٹ ختم کرنے کی خبریںگردش کر رہی ہیں ،لیکن اسی حوالے حکومت کا یہ موقف سامنےآیا ہےنگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کا اپنےٹویٹ میں کہنا تھا کہ پانچ ہزار روپے کے نوٹ پر پابندی کے حوالے سے نوٹیفیکیشن جعلی ہے۔حکومت پاکستان اس قسم کے جعلی نوٹیفیکیشن پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔
بڑے نوٹوں کا اجراء کیو ں کیا جاتا ہے؟
منی سرکولیشن کو کنڑول کرنے کے لیے 2مقبول اقدام اُٹھا ئے جاتے ہیں ۔انکے میں سے ایک بڑے کرنسی نوٹوں کا اجرا اور دوسرا پرائز بانڈ ہے۔اکثر اوقات خواتین بڑے نوٹ کو خرچ کرنے سے گریز کرتی ہیں۔خواتین کے ذہن میں یہی بات بیٹھی ہوتی ہے کہ پیسے کھوائے تو سمجھو ہاتھ سے گئے۔بعض دفعہ زیادہ پیسوں کے لین دین میں اگر کوئی ایک نوٹ جعلی آجائے تو آپ کو ایک بھاری نقصان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
منی سرکولیشن کادوسرابڑا اور مقبول اقدام پرائز بانڈ کا اجرا ہے۔ سب سے بڑاپرائز بانڈ 40 ہزار کا ہے کوئی شخص اسے خرید کر اُس رقم کو تین ماہ کے لیےمارکیٹ کی گردش سے نکال کر الگ کرلیتا ہے۔ تین ماہ کے بعد قرہ اندازی میں انعام نہ نکلنے پر لالچ میں آکر اُسی رقم کو آئندہ کے تین ماہ کے لیے محفوظ کرلیتا ہے۔اس سے 40 ہزار کی رقم مارکیٹ کی سرکولیشن سے نکل جاتی ہے۔
افراط زرکیا ہے؟
سادہ الفاظ میں بات کی جاتے تو مارکیٹ میں پیسے کی گردش زیارہ ہے لیکن اسکی قدر کم ہے۔ امریکی ڈاکر کی قد ر میں بڑااضافے کے بعد پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔
پاکستانی ایک روپیہ تین سو امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد مہنگائی ایک طوفان برپا ہے جس نے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افرادکو متاثر کررکھا ہے
جہاں پہلے کبھی سبزی کے ساتھ سبز مرچ اور دھنیہ فری ملتا تھا تو اب اُسی کے لیے ہمیں پیسے دینے پڑتے ہیں۔ مارکیٹ سے کوئی چیز خریدتے وقت اب ہمیں زیادہ پیسوں کے عوض کم مقدار میں چیز ملتی ہے۔
کالا دھن رکھنے والے بڑے نوٹو ں سےاپنی تجوریاں بھرتے ہیں
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کالا دھن پانچ ہزار کے نوٹ میں چھپایا جاتا ہے کیاپانچ ہزار کا نوٹ بند کرنے سے کیا ملک سے کرپشن ختم ہوجائے گی۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کے بینکنگ سسٹم علاوہ 8 کھرب روپے لوگوں کے ہاتھو ں میں موجود ہیں۔ماہرین کا یہ خیال ہے کہ یہی آٹھ کھرب روپے اصل فساد کی جڑ ہیں۔دیکھا جائے تو انکا کہنا درست بھی ہے کیونکہ کالا دھن رکھنے والے کبھی بھی اپنا پیسہ اپنےنام سےبینکوں میں نہیں رکھتے۔تاکہ وہ حکومت کی نظر میں نہ آئیں۔
ماہرین معاشیا ت کا کہنا ہےکہ ایسا کالا دھن رکھنے والےاپنا پیسہ ہمیشہ بڑے نوٹو ں سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔جبکہ بعض معاشی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈی منیٹائیزیشن سے کسی حد تک مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔اس سے کالے پیسے کی ڈیمانڈ سپلائی بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔
5ہزارکا نوٹ بندکرنے سے کیا ہوگا؟
ملک میں ہونے والی تاریخی مہنگائی کے پیش نظر معاشی حا لات کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے کی بجائے مزید سخت فیصلے کیے جارہے ہیں۔اس وقت افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے 5 ہزار کے نوٹ کو بند کرنے کی بجائےایسے مزید اقدام اُٹھانے کی ضرورت ہے جس سے روپے کی گردش کو کم کیا جاسکے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے نوٹوں سے کرپشن اور سمگلنگ میں آسانی ہوتی ہے جس میں سے اس میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ اوپن مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری اور پھر افغانستان ڈالر کی سمگلنگ کی بڑی وجہ پانچ ہزار کا نوٹ بتائی جاتی ہے۔ ہنڈی،سمگلنگ کے لئے بھی پانچ ہزار روپےکرنسی نوٹ کے بے دریغ استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔
دوسری جانب بعض ماہرین کا خیال ہےکہ محض 5 ہزار کا نوٹ بند کرنے سے نہ ہی کرپشن بند ہوجائے گی اور نہ ہی اسکی سمگلنگ میں کمی آئے گی ،اس کےلیے مستقل اقدام اُٹھا نے کی ضرورت ہے۔
بڑا نوٹ بڑا رسک
اکثردیکھا گیا ہے کہ بڑا نوٹ اگر جیب میں ہوتو ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں گر نہ گیا ہو،بعض خواتین بھی پرس کھول کر بھی بار بار دیکھتی ہیں کہ نوٹ موجود ہےکہ نہیں۔اکثر اوقات مارکیٹ میں شاپنگ کے دوران غیر خاضر دماغ خواتین بڑے نوٹ کو کھلوانے کے بعد دکاندار سے پیسے واپس لینا بھول جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑا نوٹ ایک بڑا رسک ہے۔
مثال کے طور پر اکثر دیکھا گیا ہے کہ خواتین جب بازاروں کا رخ کرتی ہیں تو خریداری میں ہزاروں روپے اڑا دیتی ہیں۔لیکن جب پیسے نکالنے کی باری آتی ہے تو بیشتر خواتین دکاندارکو بڑا نوٹ دینے سے کتراتی ہیں ۔کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ بڑا نوٹ اگر کھل گیا تو سمجو سارے پیسے گئے۔اسی طرح مرد حضرات کی بھی یہی سائیکی ہےکہ اگر بڑا نوٹ بیگم کے ہاتھ لگ گیا تو بقیہ رقم کو بھول ہی جاو۔
بھارت میں کالے دھندکے کنٹرول کے لیے اجرا کیے جانے والا2 ہزار کا نوٹ کیوں بند کیا جارہا ہے؟
کالے دھن کا راج پڑوسی ملک بھارت میں بھی عروج پر ہے ۔ملک میں کرپشن کو کنڑول کرنے کےلیے مودی سرکار نے 2 ہزار کے نوٹ کو بندکردیا گیا ۔ریزرو بینک آف انڈیا نے 2016 میںمتعارف کرائے گئے نوٹ کو ختم کرنے کا اعلا ن کردیا ہے۔بھارت سرکار نے کالے دھن کو ختم کرنے کے لیے دوہزار کے نوٹ کا اجرا کیا لیکن یہی نوٹ اسی کالے دھن کی وجہ بھی بن گیا۔آر بی آئی کے جانب سے بیان میں کہا گیا کہ 2 ہزار کے نوٹ 30 ستمبر 2023 تک بینکوں میں جمع کرائے جاسکتے ہیں۔
مودی سرکا ر کے اس فیصلے کے بعدسوشل میڈیا صارفین میں ایک الگ بحث شروع ہوگئی ہےکہ کیونکہ جب 2016 میں 2 ہزار کے نوٹ کا جراء کیا گیا تو اس متعلق بھارتی میڈیا اور مودی حکومت کی جانب سے اس اقدام کوکالے دھن کو ختم کرنے کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔لیکن اب یہی دو ہزار کا نوٹ کالے دھن کی وجہ سے بند کیا جارہا ہے۔
دیکھا جائے تو بھارت کے معاشی حالات پاکستان کے مقابلے میں بہت ہی اچھے ہیں۔