سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کئے جانے کیخلاف کیس میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی اور پولیس کی جانب سے جمع کرائی جانی والی رپورٹس کو مسترد کردیا۔
پیر کے روز سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کئے جانے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران عدالت نے ایف آئی اے اور پولیس کی جمع کردہ رپورٹس کو مسترد کر دیا اور 25 مارچ تک دونوں سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سینئر صحافی ابصار عالم پر حملے اور مطیع اللہ جان کے اغوا کی ناقص تفتیش پر آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور اسد طور پر غیرضروری سنگین دفعات لگانے کی بھی نشاندہی کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ججوں کا نام لے کر نوٹسز جاری کئے گئے ، عدلیہ کا کندھا استعمال کیا گیا ، کیوں نہ توہین عدالت کی کارروائی کی جائے ۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ایک کمشنر نے الزام لگایا کہ چیف جسٹس نے الیکشن میں دھاندلی کرائی ، کسی نے کمشنر سے شواہد نہیں مانگے پورا میڈیا خبر چلاتا رہا ، کیا عدالت پورے میڈیا کو نوٹس جاری کرتی کہ بغیرشواہد الزام والی خبرکیوں چلائی؟ پولیس ، ایف آئی اے تفتیش میں ناکام رہے تو سمجھا جائے گا کہ وہ جرائم کی سہولت کاری کر رہے ہیں ۔
سینیئر صحافی ابصارعالم پر حملے اور مطیع اللہ جان اغوا کیس کےحوالے سے چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد پولیس سے کہا ایک کرائم کی ریکارڈنگ موجود ہے پھر بھی ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے؟، 4 سال ہو گئے کیا آپ کو 4 صدیاں چاہیئیں؟، اٹارنی جنرل ، یہ کس قسم کےآئی جی ہیں ؟ ان کو ہٹا دیا جانا چاہیئے۔
گرفتار صحافی اسد طور پر مقدمے کا ذکر آیا تو چیف جسٹس نے ایف آئی اے افسر سےسوال کیا اس کیس میں حساس معلومات سمیت عائد دیگر دفعات کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟ ، انکوائری نوٹس میں لکھا گیا کہ عدلیہ کے خلاف مہم پر طلب کیا جا رہا ہے ، ایف آئی آر میں عدلیہ مخالف مہم کا ذکر تک نہیں ، یہ تو عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی ، اس طرح تو عوام میں عدلیہ کا امیج خراب ہو گا، کیوں نہ ایف آئی اے کو توہین عدالت کا نوٹس دیں ۔
اٹارنی جنرل عثمان منصور نے اعتراف کیا کہ اسد طور کے خلاف ایف آئی آر میں پیکا کی کچھ دفعات کا اطلاق نہیں بنتا تھا ۔
عدالت نے ایف آئی آر پر نظر ثانی کا معاملہ اٹارنی جنرل پر چھوڑ دیا جبکہ پولیس افسران کی دوران سماعت ایک دوسرے سے سرگوشیوں پر چیف جسٹس بولے یہ پولیس کے ہوم ورک کرنےکی جگہ نہیں، آئندہ اگر ایسا ہوا تو سینئرموسٹ پولیس افسر کیخلاف کارروائی ہو گی ، جس دن کارروائی ہوئی سب ٹھیک ہو جائے گا۔
بعدازاں، عدالت نےایف آئی اے اور پولیس سے تفصیلی رپورٹس طلب کرتے ہوئے سماعت 25 مارچ تک ملتوی کر دی ۔