الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق صدارتی انتخات کے لئے پارلیمنٹ ہاؤس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ آج صبح 10 سے شام 4 بجے تک ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں عام انتخابات کے نتائج کے بعد قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اراکین پارلیمان میں پہنچے ہیں اور اب قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین پاکستان کے نئے صدر کے انتخاب کے لئے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
الیکٹورل فارمولا اور طریقہ کار
صدر کے انتخاب کے لیے نمبر گیم اور طریقہ کار پیچیدہ ہے جسے سمجھنے کے لیے الیکٹورل فارمولا اور طریقہ کار ذیل میں دیا گیا ہے۔
ایوانوں میں نشستیں
سینیٹ کے اہل ووٹرز کی موجودہ تعداد 95 ہے جن میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 24 اور آزاد سینیٹرز کی تعداد بھی 24 ہے۔ اسی طرح سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 21 اراکین، پاکستان مسلم لیگ ن کے 5، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے 6، متحدہ قومی موومنٹ کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، نیشنل پارٹی کے 2 اور عوامی نیشنل پارٹی کے 2 اراکین موجود ہیں۔ ان کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور پاکستان مسلم لیگ کا ایک ایک سینیٹر موجود ہے۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی میں صدارتی انتخاب کیلئے اہل ووٹرز کی تعداد 302 ہے جن میں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے 108، سنی اتحاد کونسل کے 81، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68، متحدہ قومی موومنٹ کے 22، جمعیت علماء اسلام کے 8، پاکستان مسلم لیگ ق کے 5، استحکام پاکستان پارٹی کے 4 جبکہ مجلس وحدت المسلمین، پاکستان مسلم لیگ ضیاء، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک ووٹ موجود ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں 116 اہل ووٹرز ہیں جن میں سنی اتحاد کونسل کے 87، جمعیت علماء اسلام کے 9، پاکستان مسلم لیگ ن کے 8، پاکستان پیپلز پارٹی کے 5، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کا ایک ایک رکن جبکہ 5 آزاد اراکین بھی موجود ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں 339 اہل ووٹرز موجود ہیں جن میں پاکستان مسلم لیگ ن کے 201، سنی اتحاد کونسل کے 105، پاکستان پیپلز پارٹی کے 14، مسلم لیگ ق کے 10، استحکام پاکستان پارٹی کے 5، تحریک لبیک پاکستان، پاکستان مسلم لیگ ضیاء الحق اور مجلس وحدت المسلمین کا ایک ایک رکن اور ایک آزاد رکن موجود ہے۔
سندھ اسمبلی میں 163 اہل ووٹرز موجود ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 114، متحدہ قومی موومنٹ کے 36، سنی اتحاد کونسل کے 9، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 3 اور جماعت اسلامی کا ایک رکن موجود ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں 62 اہل ووٹرز موجود ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 17، پاکستان مسلم لیگ ن کے 16، جمعیت علماء اسلام کے 12، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، نیشنل پارٹی کے 4، عوامی نیشنل پارٹی کے 3 جبکہ جماعت اسلامی، بلوچستان نیشنل پارٹی، حق دو تحریک اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کا ایک ایک رکن موجود ہے۔
صدارتی الیکشن میں ووٹنگ فارمولا
سینیٹ میں کل نشستیں 100، خالی نشستیں 5 اور موجودہ نشستیں 95 جبکہ قومی اسمبلی میں کل نشستیں 336 ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی میں صدارتی انتخاب کیلئے اہل ووٹرز کی تعداد 302 ہے۔ صدارتی انتخاب میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے کل اہل ووٹ 397 ہیں اور ہر رکن کا ووٹ ایک ووٹ تصور ہوگا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے برعکس چاروں صوبائی اسمبلیوں کا ووٹ، ملک میں ارکان کی تعداد کے لحاظ سے سب سے چھوٹی صوبائی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد کے برابر تصور کیا جائے گا۔ یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے تو باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے کل ووٹ بھی 65 ہی شمار ہوں گے۔
پنجاب اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 371 ہے جسے 65 پر تقسیم کیا جائے تو صدارتی انتخاب میں پنجاب اسمبلی کے 5.70 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔ اسی طرح سندھ اسمبلی میں ٹوٹل نشستیں 168 کی تعداد کو 65 سے تقسیم کیا جائے تو 2.58 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 145 کو بھی 65 سے تقسیم کیا جائے تو 2.24 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔ بلوچستان اسمبلی چونکہ تعداد کے حساب سے دیگر صوبوں کی نسبت چھوٹی اسمبلی ہے اور اراکین کی تعداد 65 ہے اس لئے یہاں کے ہر رکن کا ایک ایک ووٹ ہی تصور کیا جائے گا۔ صدارتی انتخاب کیلئے کل ووٹوں کی تعداد 700 ہو گی۔
صدر کے انتخاب کا طریقہ کار
چیف الیکشن کمشنر صدارتی انتخاب کے لیے ریٹرنگ آفیسر ہوں گے جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور سینٹ و قومی اسمبلی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پریزائیڈنگ آفیسر کی ذمہ داری سر انجام دیں گے۔
سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی پارلیمنٹ ہاؤس میں پولنگ کے عمل میں حصہ لیں گے جب کہ ارکان صوبائی اسمبلی اپنی متعلقہ اسمبلیوں میں قائم پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ میں حصہ لیں گے۔