سپریم کورٹ آف پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر دو عدالتی معاونین خالد جاوید خان اور بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل مکمل کر لیے۔
ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے کی۔ عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے، ججز کی آزادی اور ان پر ریاستی دباو ہو تو اس بات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جج کے سامنے دو ہی سوال ہوتے ہیں جرم ہوا یا نہیں۔
عدالتی معاون نے موقف اپنایا کہ جب بھٹو کو پھانسی دی گئی اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں سمت ٹھیک کرنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے سوچا گیا ہو اسے سزا نہ دی تو کل یہ پراسیکیوٹر بن کر ہم پر آرٹیکل 6 نہ لگا دے، یہ چیزیں بھٹو فیصلے میں نہیں مگر تاریخ کا حصہ ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کے میرٹس پر نہیں جاسکتی، میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس میں صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔ اگر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو کس طریقے سے سپریم کورٹ اب دوبارہ جائزہ لے۔ عدالتی ریکارڈ پر ایسا مواد دکھائیں جس سے ثابت ہو کہ ججز پر دباؤ تھا یا تعصب پر فیصلہ کیا گیا، ایسے میں تو کہا جائے گا ہر کیس کھولا جائے۔ مارشل لاء نافذ تھا صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ہم کسی عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دیے بغیر کیسے تعصب کا جائزہ لے سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ، سپریم کورٹ اور نظرثانی کے فیصلوں کو کالعدم قرار دئیے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل میں جسٹس نسیم حسن شاہ کی کتاب اور انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تسلیم کر رکھا ہے بھٹوکیخلاف فیصلہ دینے کے بعد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور اٹارنی جنرل نے ان سے ملاقات کر کے کہا اپیل سننے والے بنچ میں آپ بھی بیٹھیں۔ صرف اسی بات پر سزائے موت کا فیصلہ کالعدم ہونا چاہیے تھا۔
عدالت نے مزید سماعت منگل کے روز تک ملتوی کر دی گئی۔