کون بنے کاوزیراعظم پاکستان ؟ سادہ اکثریت نہ ملی تو وزارت عظمیٰ کا انتخاب کیسے اور پارلیمنٹ کا مستقبل کیا ہوگا؟تمام نظریں لاہور اور اسلام آباد میں ہونے والی سیاسی گہماگہمی پر ہیں ۔آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 4 کے مطابق وزیر اعظم منتخب ہونے کیلئے 169ارکان کی حمایت ضروری ہے ،،سیاسی جماعتوں میں پاور شیئرنگ فارمولاطے نہ پاسکا توتمام جماعتیں اپنااپناامیدوار نامزد کرسکتی ہیں ،،ووٹنگ میں کوئی امیدوار 169کاہندسہ عبور نہ کرسکاتو ٌپہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے صرف 2 امیدواروں کے درمیان رن آف الیکشن ہو گا ۔رن آف الیکشن میں جو امیدوار قومی اسمبلی کے حاضر ارکان میں سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرلے گا وہی وزیراعظم پاکستان منتخب ہو گا،،،ابھی تک کے اعداوشمار کے مطابق ن لیگ ،ایم کیوایم ،جے یوآئی اور آئی پی پی کے ارکان اگر مل گئے تو ان کی تعداد 130سے زیادہ ہوجائےگی ۔۔۔دوسری جانب خواتین کی مخصوص نشستیں ملاکر پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد 68سے بڑھنے کاامکان ہے۔۔ادھر ۔۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکا ن کی تعداد 91رہ گئی ہے۔۔ نمبر گیم کا اونٹ فی الحال آزاد ارکان کے حق میں بیٹھتا نظر نہیں آرہا۔۔ کیونکہ آزاد ارکان کے پاس صرف پیپلز پارٹی کے ارکان کو ساتھ ملانے کی آپشن موجود ہے ۔۔ مگر دونوں گروپس میں فی الوقت کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیالے اور متوالے ہی مل کر پاور شیئرنگ منصوبے کے تحت آگے بڑھنے والے ہیں ۔۔ ایسے میں کچھ لو اور کچھ دو کا فارمولہ واضح ہے ۔ ن لیگ پنجاب میں حکومت بنانے کی واضح پوزیشن میں ہے ۔ یہاں حمزہ شہباز وزیراعلیٰ ہو سکتے ہیں بعض ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ مریم نواز کی بھی بطور وزیراعلیٰ لانچنگ ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح شراکت اقتدار کے فارمولے پر مرکز کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کو سپیکر شپ دی جاسکتی ہے ۔ اگر صدر مملکت کے لئے آصف زرداری کا نام زیر غور ہے تو وزیراعظم کے لئے شہباز شریف بھی سامنے آسکتے ہیں۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے نوازشریف کو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بجائے شہباز شریف کو ایک موقع دینا چاہیے ۔ بہرحال مختلف آپشنز پر کام جاری ہے دیکھنا یہ ہے کہ حکومت سازی کا فائنل راؤنڈ کب مکمل ہوتا ہے ۔