اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے بانی عمران خان کی توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے 21 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا گیا جس میں سماعت کے مقام کے تعین سے متعلق ایگزیکٹو کے اختیارات کے حوالے سے 1931 کے بمبئی ہائیکورٹ کے فیصلے پر انحصار درست قرار دیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کے جج کی تقرری پر درخواست گزار کے اعتراضات بھی مسترد کردئیے ہیں۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق نیب قانون کے مطابق سیشن عدالت کے مقام کا تعین کرنا ایگزیکٹو کا اختیار ہے ، ایگزیکٹو آرڈر موجود نہ ہو تو متعلقہ عدالت کسی دوسرے مقام پر سیشن کیلئے آرڈر جاری کرسکتی ہے، ایگزیکٹو آرڈر کی موجودگی میں متعلقہ عدالت نے دئیے گئے مقام پر سماعت کرنا ہوتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سائفر کیس میں دو رکنی بینچ کے سامنے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت زیر سماعت معاملے میں اپیل تھی، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں عدالت کے مقام کے تعین کے حوالے واضح قانون موجود نہیں ، واضح قانون موجود نہ ہونے کی وجہ سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مقدمے میں سی آر پی سی کی دفعہ 352 کا اطلاق ہوتا ہے۔
لازمی پڑھیں۔ توشہ خانہ ریفرنس کیس، عمران خان اور بشریٰ بی بی کو 14، 14 سال قید کی سزا
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈر اور سی آر پی سی کی سیکشن 352کا اطلاق تب ہوگا جب سیشن عدالت مقام سے متعلق آرڈر پاس کرے، بظاہر جیل ٹرائل درخواست گزار کی جان کو لاحق خطرات کے پیش نظر ہے، بدنیتی پر مبنی نہیں، درخواست گزار کے وکیل کا یہ اعتراض درست ہے کہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے ہی جیل سماعت کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا،تاہم، نیب پراسکیوٹر کی جانب سے بتایا گیا کہ جیل سماعت کے نوٹیفکیشن کے وقت ضمانت اور ریمانڈ کی کارروائی چل رہی تھی۔
عدالت کی جانب سے آبزرویشن دی گئی کہ ایگزیکٹو آرڈر یا ٹرائل کورٹ کے کسی حکم کی بنیاد پر کارروائی کو کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا، سی آر پی سی کی سیکشن 537 میں واضح ہے کہ کون سی کارروائی کالعدم قرار دی جاسکتی ہے اور کون سی نہیں ، سی آر پی سی میں واضح ہے کہ ایسی غلطی جس سے انصاف کی فراہمی میں ناکامی ہو تو اس کا ازالہ ضروری ہے۔