سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے بانی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10، 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے لیکن، سائفر کیس کا آغاز کب ہوا اور اس کیس کے دوران کہاں کہاں کون کون سے اہم موڑ آئے ؟۔
اس حوالے سے تیار کی جانے والی رپورٹ کے مطابق سائفر گمشدگی سے متعلق انکوائری کا آغاز پانچ اکتوبر 2022 کو ہوا، ایف آئی اے کی تحقیقات کے بعد 15 اگست 2023 کو مقدمہ درج کیا گیا جس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ملزم نامزد کیا گیا۔
لازمی پڑھیں۔ سائفر کیس، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10 ، 10 سال قید کی سزا
وفاقی تحقیقاتی ادارے نے 16 اگست کو شاہ محمود قریشی جبکہ 29 اگست 2023 کو بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری ڈالی۔
30 اگست کو ایف آئی اے کی خصوصی عدالت میں مقدمے کی پہلی سماعت ہوئی ،17 اکتوبر تک اس عدالت نے مجموعی طور پر پانچ مرتبہ کیس سنا۔
23 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے سائفر ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے قیام کی منظوری دی جس کے بعد ابوالحسنات ذوالقرنین جج مقرر ہوئے اور اڈیالہ جیل میں سماعت شروع کی ، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے 21 نومبر کو بانی پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے کیس کا اِن کیمرا ٹرائل کالعدم قرار دیا تو کارروائی از سر نو شروع کی گئی۔
4 دسمبر 2023 کو ملزمان میں مقدمے کی نقول تقسیم کیں گئی جبکہ 13 دسمبر کو فرد جرم عائد ہوئی، 14 دسمبر کو استغاثہ نے ان کیمرہ ٹرائل کی درخواست کی تو اس سے اگلے روز دو گواہان اقراء اشرف اور عمران ساجد نے بیانات بھی قلمبند کرا دیئے۔
20 دسمبر کو دس جبکہ 25 دسمبر کو 12 گواہان کی شہادتیں ریکارڈ ہوئیں، 25 دسمبر کو بیانات ریکارڈ کرانے والوں میں سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ، سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اور سابق سفیر اسد مجید شامل تھے۔
26 دسمبر کو وکلائے صفائی نے گواہان کے دوبارہ بیانات ریکارڈ کرنے سمیت چھ متفرق درخواستیں دائر کیں۔
29 دسمبر 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے 11 جنوری تک حکم امتناع دے دیا،3 جنوری اور پھر 8 جنوری کو حکم امتناع کے باعث کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔
12 جنوری کو پراسیکیوٹر موجود نہیں تھے ، اسی دوران ہائیکورٹ نے 14 دسمبر کے بعد کی عدالتی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا۔
استغاثہ نے 15 جنوری کو چار ، 16 جنوری کو چھ، 18 جنوری کو سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سمیت پانچ جبکہ 22 جنوری کو چار گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرائے جن میں سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود ، سابق سیکرٹری داخلہ اور شکایت کنندہ یوسف نسیم کھوکھر بھی شامل تھے۔
30 جنوری کو موجودہ سیکرٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی اور سابق سفیر اسد مجید سمیت چھ گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ ہوئیں۔ گواہان پر جرح کا آغاز 24 جنوری کو ہوا اور پہلے روز صرف تین گواہوں پر جرح ہو سکی، 26 جنوری کو وکلائے صفائی پیش نہ ہوئے اور التوا کی درخواست بھجوا دی۔
عدالت نے ملزمان کے وکلا کو حاضری کے دو مواقع دیئے پھر بھی پیش نہ ہونے پر حق جرح ختم کر دیا اور ملزمان کیلئے سرکاری وکلائے صفائی مقرر کر دیئے۔
سرکاری وکیل ملنے پر ملزمان سیخ پا ہو گئے اور 27 جنوری کی سماعت میں شاہ محمود قریشی نے کیس فائل دیوار پر دے ماری۔ اس روز دس گواہان پر سرکاری وکلا نے جرح کی۔
29 جنوری کو سابق سیکرٹری اعظم خان سمیت دس گواہان پر جرح ہوئی اور 30 جنوری کو عدالت نے کیس کا فیصلہ سنا دیا۔