اگر پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اتنے حیران کن واقعات سامنے آئیں گے ، صرف وزرائے اعظم کے عہدہ سنبھالنے ، عہدے پر قائم رہنے اور گھر روانگی کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے ۔
پاکستان کی 20سالہ انتخابی تاریخ کی بات کریں تو 4 جنرل الیکشن2002، 2008 ، 2013اور2018 کا انقعاد ہوا ۔آئین پاکستا ن کے مطابق وزیر اعظم بھی چار ہونے چاہیے مگر یہاں سابق وزیر اعظموں کی تعداد ڈبل سے ایک زیادہ یعنی9ہے۔ 9وزیر اعظم وفاق میں عوام کے نمائندے کے طور پر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے۔سوال یہ ہے کہ 8فروری کو ہونے والے انتخابات میں کون کون سے سابق وزرائے اعظم حصہ لے رہے ہیں؟
سابق وزرائے اعظم کن کن حلقوں سے الیکشن لڑیں گے؟
ملک میں آئندہ ماہ ہونےوالے انتخابات میں صرف 4سابق وزرائے اعظم حصہ لے رہے ہیں ۔ان میں مسلم لیگ ن کے سربراہ اور تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف اور ان کے بھائی میاں محمد شہباز شریف شامل ہیں جبکہ دوسری جانب پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی انتخابی میدان میں اپنی قسمت پھر سے آزمائیں گے۔یہ چاروں سابق وزرائے اعظم کن کن حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں انکی تفصیل درجہ ذیل ہے۔
سابق وزیر اعظم میں محمد نواز شریف قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے اپنی قسمت آزمائیں گےجس میں کے پی کےضلع مانسہرہ حلقہ این اے 15اور پنجاب کے ضلع لاہور این اے 130 شامل ہیں ۔سابق وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف ضلع لاہور سے این اے 123 سےضلع قصور سے این اے 132سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ضلع ملتان سے قومی اسمبلی کی نشست این اے148سے اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ضلع راولپنڈی سے این اے52 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
چاروں سابق وزرائے اعظم کے مد مقابل امیدوار کون؟
پیپلزپارٹی کے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے مد مقابل آزاد امیدوار (تحریک انصاف کے حمایت یافتہ۔انتخابی نشان پیالہ) طارق عزیز بھٹی ایڈووکیٹ ،مسلم لیگ ن کے راجہ محمد جاوید اخلاص اور جماعت اسلامی کے چودھری عابد حسین ہیں۔
میاں محمد نواز شریف این اے 15 مانسہرہ سے حصہ رہے ہیں ۔اس حلقے میں ان کے مد مقابل آزاد امیدوار (تحریک انصاف کے حمایت یافتہ )شہزادہ محمد گستاسف خان ،جمعیت علماء اسلام نےمفتی کفایت اللہ ،پیپلزپارٹی کے زرگل خان،جماعت اسلامی کے خالد خان یوسفزئی ہوں گے۔لاہور این اے 130کی بات کریں تو یہ حلقہ مسلم لیگ ن کا آبائی حلقہ اور گڑھ کہلاتا ہے۔اس حلقے سے نواز شریف کے مد مقابل آزاد امیدوار (تحریک انصاف کی حمایت یافتہ ،انتخابی نشان لیپ ٹاپ)ڈاکٹر یاسمین راشد، پیپلزپارٹی سے اقبال احمد خان،جماعت اسلامی کے خلیق احمد بٹ ہیں۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف پنجاب سے اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔این اے 123لاہور سے ان کے مد مقابل آزاد امیدوار (تحریک انصاف کے حمایت یافتہ انتخابی نشان ریڈیو) افضال عظیم ایڈووکیٹ ،پیپلزپارٹی کے رانا ضیاء الحق،اور جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ اہم امیدواروں میں شامل ہیں۔
ضلع قصور سے این اے 132سے ان کے مقابلے میں آزاد امیدوار(پاکستان تحریک انصاف کا حمایت یافتہ۔انتخابی نشان کرکٹ وکٹ)سردار محمد حسین ڈوگر،پیپلزپارٹی کے شاہین صفدر اور جماعت اسلامی کے نعیم حیدر ہیں۔
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے مد مقابل آزاد امیدوار(تحریک انصاف کا حمایت یافتہ،انتخابی نشان گھڑیال)بیرسٹر تیمور ملک،مسلم لیگ ن کے احمد حسین ڈیہڑ ہیں ۔
2018 ان حلقوں میں کون جیتا کون ہارا؟
این اے 15مانسہرہ 2018 کے الیکشن میں اس حلقے سے مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی،تحریک انصاف کے امیدوار زر گل 20ہزار ووٹوں کے مارجن سے ہار گئے تھے۔واضح رہے رزگل خان تحریک انصاف کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔این اے 130نواز شریف کے اس حلقےکی بات کریں تو 2018 کے انتخابات میں یہ حلقہ این اے 125تھا جہاں سے میاں محمد نواز شریف تا حیات نااہلی کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑ سکے تھے ان کی جگہ وحید عالم خان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر123066ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد17ہزار186ووٹوں کے مارجن سے شکست کھا گئی تھیں۔
2018 میں یہ حلقہ این اے 132تھا جہاں سے میاں محمد شہباز شریف ہی کامیاب ہوئے تھے انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار محمد منشاسندھو کو 46ہزار 771ووٹوں سے شکست دی تھی۔سابق وزیر اعظم شہباز شریف جس حلقے سے الیکشن لڑ رہےہیں گزشتہ انتخاب میں اس حلقے سے راشید احمد خان 1لاکھ ووٹ لے کر کامیا ب ہوئے انہوں نے تحریک انصاف کےامیدوار سردار راشد طفیل کو 50ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی تھی۔راجہ پرویز اشرف 2018 کےانتخابات میں اپنے حلقے سے 1لاکھ 25ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا حلقہ 2018میں این اے 154تھا تحریک انصاف کے احمد حسین ڈیہڑ کامیاب ہوئے تھے انہوں نے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبد القادر گیلانی کے بیٹے کو 10ہزارو وٹوں کے مارجن سے شکست دی تھی۔واضح رہے احمد حسین ڈیہڑ اب مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے ہیں۔
کیاان حلقوں میں اب بھی کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے؟
انتخابی سیاست کا پہلا اصول ،انتخابی ٹکٹ اس حلقہ کا حاصل کیا جائے جہاں کامیابی یقینی ہو ۔اگر 4سابق وزرائے اعظم کےانتخابی حلقوں کو دیکھا جائے تو سب نے ان حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جہاں جیت یقینی ہو۔میاں محمد نواز شریف مانسہرہ سے اپنے داماد کپٹن صفدر کے آبائی حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔دوسرا اہم حلقہ لاہور گوالمنڈی مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے۔
سینئر صحافی مبشر بخاری کا کہنا ہے کہ ’اس حلقے میں 2018کے مقابلے میں کانٹے دار مقابلہ نہیں ہو گا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد جیل میں ہیں اور ان کی انتخابی مہم اس طرح سے نہیں ہو رہی جیسے گزشتہ انتخاب میں ہوئی تھی ۔ گزشتہ انتخاب میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بھی یاسمین راشد کو کاسٹ ہو ا تھا جبکہ بلاول بھٹو کا لاہور میں انتخابی ریلیوں اور جلسوں کی وجہ سے جیالا بھی پیپلزپارٹی کی طرف راغب ہو ا تو پیپلزپارٹی کا ووٹر بھی اپنے امیدوار کو ووٹ کاسٹ کرسکتا ہے۔
مبشر بخاری نے کہا کہ ڈاکٹر یاسمین کے پوسٹر لگانے والی ٹیم نے بتایا ہے کہ وہ پوسٹر لگانے جاتے ہیں تو اگلے دن پوسٹر اتار دیے جاتے ہیں ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف چونکہ خود اس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں اور انکے نیچے صوبائی نشست پر مرحوم کلثوم نواز کے بھانجے بلال یاسین انکی انتخابی مہم کو چلا رہےہیں۔
ٹرن آؤٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مبشر بخاری کا کہنا تھا کہ گزشتہ انتخاب کی نسبت اس بار ٹرن آؤٹ زیادہ ہو گا ۔
مبشر بخاری کا کہنا ہے کہ شہباز شریف پرانے کھلاڑی ہیں 2018میں بھی وہ اس نشست سے کامیاب ہوئے اس بار بھی کامیابی انہیں ہی ہو گئی ۔اگر دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہے تحریک انصاف کا بنیادی ڈھانچہ ہی مفلوج ہونے کی وجہ سے امیدواروں کی انتخابی مہم بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
سینئر تجزیہ نگار سلمان عابد کہتے ہیں کہ الیکشن کا ٹرن آوٹ 40فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اگر ٹرن آوٹ زیادہ ہو اتو مسلم لیگ ن زیادہ نشستیں نہیں جیت پائے گی۔ اگر ٹرن آوٹ 60فیصد سے زیادہ ہو جاتا ہے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ6کروڑ ووٹرز جو 18سے 35سال کے درمیان ہیں اگر وہ باہر نکلتے ہیں تو مسلم لیگ ن کے لئے بڑا چیلنچ ہوگا کیونکہ انتخابی سیاست میں نوجوانوں کاکردار بہت اہم ہے۔پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی دونوں اپنے اپنے آبائی حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ان حلقوں میں ان کے ووٹرز اور مقامی حمایتی گروپس بھی ساتھ کھڑے ہیں۔
2002میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر ظفر اللہ خان جمالی 1سال اور 216دن کے لئے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ضلع گجرات سے چودھری خاندان کے تعلق رکھنے والے چودھری شجاعت 54دنوں کے لئے وزیر اعظم ،28اگست2004 میں شوکت عزیز3اور79دنوں کے لئے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔مارچ 2008میں ضلع ملتان کے گیلانی خاندان سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا گیلانی4سال86دنوں کے لئے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔یہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے کا دور اقتدر سب سے طویل تھا۔2012 میں پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف275دن،2013میں پاکستان کے 20ویں اور تیسری بار میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے انہوں نے 4سال53دن حکومت کی۔
2017 میں مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی303دنوں کےلئے جبکہ 2018 میں بانی تحریک انصاف عمران خان 3سال اور235دنوں کے لئے وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔2023میں میاں محمد شہباز شریف 1سال 125دن کے لئے وفاق میں ریاست کے سربراہ کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔