ناروال میں مسیحی برادری سے سخاوت مسیح کو بھی قومی اسمبلی کا ٹکٹ مل گیا جو 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 76 نارووال 2 سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابی معرکہ کا حصہ ہوں گے، ناروال کی تاریخ میں پہلی بار مسیحی برادری کو انتخابی ٹکٹ ملا ہے۔
"پیپلزپارٹی نے ایک ورکر کو انتخابی ٹکٹ دے کر ہماری کمیونٹی کی حوصلہ افزائی کی اور یہ ثابت کیا کہ پارٹی اپنے ورکرز کو نظر انداز نہیں کرتی۔" یہ کہنا تھا سخاوت مسیح کا۔
سخاوت مسیح پہلی بار جنرل الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔پیپلزپارٹی سے اپنی سیاست کا آغا ز کرنے والے سخاوت کا کہنا ہے کہ وہ 15سال سے پارٹی کے ساتھ منسلک ہیں ۔ نارووال ضلع میں پیپلز پارٹی سے اقلیتی ونگ کے صدر کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
انہوں نے بلدیاتی انتخابات 2015 میں پیپلز پارٹی کی طرف سے چئیرمین کا انتخاب بھی لڑا۔ سخاوت مسیح کا کہنا تھا کہ " میں اپنے خاندان سے پہلا فرد ہوں جو سیاست سے منسلک ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر کونسلر اور چئیرمین کا الیکشن بھی لڑ چکا ہوں ۔"
2018ء کے انتخابات میں حلقہ این اے 78سے مسلم لیگ ن کےاحسن اقبال کامیاب ہوئے تھے جبکہ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے امیدوار ابرار الحق تھے۔ ماضی کے انتخابی نتائج کو مدنظر رکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف کے امیدوار کو مسیحی برادری کاووٹ بھی کاسٹ ہوا ہو گا تو بے جا نہ ہو گا۔اس حلقے کے ووٹرمائیکل جوزف کا کہنا ہےکہ "پچھلے الیکشن میں ہم نے بلے کو ووٹ دیا تھا، ہماری برادری سے کبھی کوئی الیکشن میں کھڑا نہیں ہوا ۔اس الیکشن میں کرسچن کمیونٹی سے پہلی بار سخاوت الیکشن لڑ رہا ہے تو ہمارا ووٹ ہمارے بھائی کے لئے ہے۔"
اگر سخاوت کامیاب ہوتا ہےتو کیا وہ کرسچین کمیونٹی کے لئے کچھ کرے گا؟اس سوال پر مائیکل جوزف کا کہنا تھاکہ"سخاوت بھی ہم میں سے ہے،وہ جانتا ہے ہمارے مسائل کیا ہیں۔ امید ہے کہ ہمارے بچوں کی تعلیم اور سرکاری نوکریوں کے مسائل کو حل کرنے میں مد د کرے گا۔"
اس حلقے میں مذہبی اقلیتوں کے 48ہزار ووٹ ہیں اور یہ صرف کرسچن کمیونٹی کے ووٹ ہیں۔ان میں مرد ووٹرز کی تعداد 26000اور 22000 کے لگ بھگ خواتین کا ووٹ ہے۔ سخاوت مسیح کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ اعدادو شمار الیکشن کمیشن آف پاکستان سے حاصل کئے ہیں۔جنرل نشست پر انتخاب میں حصہ لینے سے پہلے یہ پتہ ہونا ضروری تھا کہ انہیں کرسچن ووٹوں کی تعداد پتہ ہو تاکہ اپنی انتخابی مہم کو بہتر انداز میں چلا سکیں۔2018 میں پیپلزپارٹی نے کسی کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔
سخاوت کا کہنا تھا ان کے حلقےا ین اے 78 سے آرائیں برادری ،اور راجپوت برادری نے ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ کرسچن کمیونٹی کی ایک کثیر تعداد نے بھی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔ کرسچن کمیونٹی کی حمایت کی وجہ سے انتخابی مہم کے دوران کارنر میٹنگز اور انتخابی ریلیوں میں بہت مدد مل رہی ہے۔
اپنی جیت کے حوالے سے پرامید سخاوت نے بتایا کہ ان کے پاس پیپلزپارٹی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا حصہ بننے والی خواتین کا ڈیٹا بھی موجود ہے، انہوں نے کہا کہ "18ہزار خواتین بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہو رہی ہیں ۔انتخابی مہم کے دوران میں گھر گھر جا کر خواتین سے ووٹ کےلئے درخواست کرتا ہوں ۔"
8فروری کوہونے انتخابات میں ضلع ناروال کی صوبائی نشست پی پی 56 سے پیپلزپارٹی کی ظلِ ہما امیدوار ہیں۔ظلِ ہما سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔غلام رسول زبیر ان کےسسر بھٹو کے دیرینہ ساتھی تھے۔ ان کے شوہر ڈاکٹر شہزاد زبیر نے 1979 میں ضیاء دور میں قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔2002 کے بلدیاتی انتخاب میں ضلع کونسل کی ممبر رہی ہیں۔
2005میں تحصیل کونسل کی ممبر رہیں۔2018 میں پہلی بار انتخابی عمل کا حصہ بنیں اور پی پی 48سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر 2631ووٹ حاصل کئے۔وہ سمجھتی ہیں کہ پارٹی کا ٹکٹ ملنے سے سخاوت مسیح کو ایک باضابطہ حیثیت مل گئی۔ اب وہ صرف ایک عام امیدوار نہیں رہے بلکہ پارٹی کے نمائندہ ہیں۔ اس سے ان کے لیے ووٹرز سے رابطہ قائم کرنا اور اپنے پیغام کو پھیلانا آسان ہو گیا۔
چئیرپرسن ادارہ برائے سماجی انصاف کے سربراہ پیٹر جیکب کا کہنا تھا کہ کرسچن کمیونٹی کے امیدواروں کا جنرل نشستوں پر 8 فروری کو ہونےو الے انتخابات کا حصہ بننا اس بات کا ثبوت ہے کہ سوسائٹی میں کرسچن کمیونٹی کواہمیت حاصل ہے :"ہم بھی اس سسٹم میں موجود ہیں۔ اگر ہمارے لوگ اپنے ووٹ رجسٹر کروائیں تو پنجاب کے بہت سے حلقوں میں ہماری اہمیت مزید بڑ ھ جائے گی ۔"
فیصل آباد سے یعقوب نعیم مسیح بھی جنرل نشست کے امیدوار
ضلع فیصل آباد کے حلقہ پی پی 115 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر یعقوب نعیم مسیح
بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔اس حلقے کی بات کریں تو قومی اسمبلی کی نشست این اے 102سے پیپلز پارٹی کے نعیم دستگیر خان جبکہ صوبائی اسمبلی کی دوسری نشست پی پی 116سے محمد ریاض الحق انتخابی عمل کا حصہ بن رہے ہیں۔
یعقوب نعیم کا کہنا تھا کہ یہ شہری حلقہ ہے ،الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دیئے گئے اعدادوشمار جہاں کرسچن کمیونٹی کے 65000ووٹ ہیں۔2018کے انتخابات میں یہ حلقہ این اے 102 تھا۔اس حلقے سےتحریک انصاف کے نواب شیر وسیر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے مد مقابل طلال چودھری کو شکست ہوئی تھی۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار ملک اصغر علی قیصر نے 4987ووٹ حاصل کئے تھے۔
یہ تفصیل اس لئے لکھی گئی ہے کہ قارئین کی معلومات میں اضافہ کیا جائے کہ جس حلقے سے یعقوب نعیم کو ٹکٹ دیا گیا اس حلقے میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک مضبوط نہیں مگر یعقوب نعیم کی خوشی اس سوچ سے بالاتر ہے۔
یعقوب نعیم نے مزید کہا کہ انہیں حلقے میں جٹ ،آرائیں اور انصاری برادری کی حمایت حاصل ہے جبکہ کرسچن کمیونٹی نے ووٹ دینے کا وعدہ کیاہے۔پیپلزپارٹی نے اپنے ورکرر کو ٹکٹ دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ پسماندہ کمیونٹی کی بھی پارٹی ہے۔
یعقوب مسیح کا کہنا تھا کہ الیکشن میں پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کی۔ انہوں نے پارٹی کے لیے کام کیا اور پارٹی کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ان کی محنت اور لگن کے نتیجے میں انہیں پارٹی کا ٹکٹ ملا۔
قومی اسمبلی کے امیدوار سخاوت مسیح اورصوبائی اسمبلی کے امیدوار یعقوب نعیم مسیح کو پیپلزپارٹی کی طرف سے ٹکٹ ملنا ہی ان کی بڑی کامیابی ہے ۔
کرسچین کمیونٹی کو جنرل نشست ملنا ان کے حقوق کی ضمانت ہے؟
جنرل نشستوں پر نمائندگی سے کرسچن کمیونٹی کو حقوق مل سکتے ہیں یانہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب شاید آئندہ آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔ جنرل نشستوں پر نمائندگی سے کرسچن کمیونٹی کے نمائندوں کو قانون سازی میں حصہ ڈالنے کا موقع ملے گا۔ اس سے وہ کرسچن کمیونٹی کے بنیادی حقوق کے لیےمزید کام کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کرسچن کمیونٹی کے نمائندوں کو قانون سازی میں حصہ ڈالنے کا موقع ملتا ہےتو وہ کرسچن کمیونٹی کے لیے امتیازی سلوک کے خلاف قانون سازی کی حمایت کر سکتے ہیں۔ کرسچن کمیونٹی کے لیے مذہبی آزادی کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
تاہم اگر صرف یہ کہا جائے کہ جنرل نشستوں پر نمائندگی سے کرسچن کمیونٹی کو حقوق مل جائیں گے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کرسچن کمیونٹی کے نمائندے قانون سازی میں اپنے حقوق کے لیے کام کرتےہیں یا نہیں۔
اگر کرسچن کمیونٹی کے نمائندے قانون سازی میں اپنے حقوق کے لیے کام نہیں کرتے تو جنرل نشستوں پر نمائندگی سے ان کے حقوق پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔