آج سے تقریبا پچاس سال پہلے ڈاکٹر والٹر مشل نے ایک تحقیق کی۔ اس نے اپنے تجربے کے لیے 90 بچوں کا انتخاب کیا اور ان بچوں کو مارش میلو دیئے۔ مارش میلو ایک قسم کی کینڈی ہے جو ہر ایک دکان پر دستیاب ہے۔ ڈاکٹر نے کہا میں تمہیں یہ مارشمیلو لو دے رہا ہوں اور جو بچے انہیں پندرہ منٹ تک نہیں کھائیں گے انھیں ایک اور مارشمیلو دیا جائے گا جبکہ جو بچے کھا لیں گے انہیں دوبارہ نہیں ملے گا۔ یہ کہہ کر وہ باہر چلے گئے اور پندرہ منٹ بعد یا واپس آ کر انہوں نے دیکھا کہ کچھ بچوں نے مارش میلوں کھالئے تھے اور کچھ نے نہیں کھائے تھے۔ انہوں نے تمام بچوں کا ریکارڈ جمع کر لیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے چالیس برس تک ان بچوں میں آنے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں ان چالیس برسوں میں انہوں نے کیا دیکھا ؟
انہوں نے دیکھا کہ جن بچوں نے 40 سال پہلے مارش میلو نہیں کھائے تھے ان بچوں کی زندگی بہت خوشحال گزر رہی تھی یہ بچے مختلف قسم کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں یہ بچے زیادہ صحت مند تھے موٹاپے کا شکار نہیں تھے اور مجموعی طور پر خوشحال تھے۔ یہی نہیں ان بچوں کے تعلقات ساتھ کام کرنے والوں اور رشتہ داروں کے ساتھ خوشگوار تھے۔ اس کے برعکس جن بچوں نے مارش میلو کھا لیے تھے ان کی بڑی تعداد کی حالت خستہ تھی معاشی طور پر کمزور موٹاپے کا شکار وغیر ، غیر صحت مند زندگی، شریک حیات سے خراب تعلقات اور طلاق کا شرح زیادہ ، مختصر یہ کہ ان کی زندگی ناخوشگوار تھی۔
ولٹر مشل کے بعد یہ تحقیق مختلف لوگوں نے مختلف علاقوں میں رہنے والے بچوں پر کی اور کم و بیش یہی نتائج سامنے آئے۔ اس ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی کہ جن لوگوں میں سیلف کنٹرول نہیں ہوتا صبر نہیں ہوتا وہ لوگ زیادہ تر خوشحال زندگی نہیں گزارتے۔ ان میں بہت سارے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے والدین کو سپورٹ یا کسی اور وجہ سے کامیاب تو ہو جاتے ہیں لیکن خوش اور مطمئن نہیں رہتے۔
اس تحقیق کے بعد ریسرچرز کے ایک گروپ نے اسی تحقیق کو آگے بڑھایا اس بار انہوں نے بچوں کو دو علیحدہ علیحدہ گروپ میں تقسیم کیا اور انہیں مارش میلو کے ساتھ ایک چھوٹا کلر بکس بھی دیا۔ بچوں سے کہا گیا کہ جو بچے مارش میلو نہیں کھائیں گے انہیں بڑا کلر باکس دیا جائے گا اور جو بچے کھا لیں گے انہیں نہیں دیا جائے گا ۔
اس بار بھی یہی ہوا کچھ بچوں نے کھا لیا اور کچھ نہیں ، جنہوں نے نہیں کھایا تھا ریسرچرز کی ٹیم نے وعدے کے مطابق انھیں بڑا کلر بکس دے دیا لیکن دوسرے گروپ کے بچوں سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا اور انہیں بڑا کلر باکس نہیں دیا۔
کچھ عرصے بعد ان دونوں گروپس کے بچوں کے ساتھ اسی تحقیق کو دہرایا گیا۔ اس بار عجیب بات سامنے آئی کہ جن بچوں کو وعدے کے باوجود بڑا کلر بکس نہیں دیا گیا تھا اس بار انہوں نے انتظار کیے بغیر مارش میلو فوراً کھا لئے۔
بچے خود پر قابو کیو نہیں رکھ پاتے ؟
بچوں کا کنٹرول کھو دینے میں والدین کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جب والدین بچوں کو بہلانے یا اپنی بات منوانے کے لئے کوئی وعدہ کرتے ہیں اور پھر اسے پورا نہیں کرتے تو بچوں کا بھروسہ اٹھ جاتا ہے۔ جب والدین بچوں کو کسی بات سے منع کرنے کے لیے دھمکی دیں اور بچے بات نا مانیں تو والدین نے اپنی بات پر عمل نہیں کرتے یا بچوں کو کسی کام کے لئے لالچ دیں اور بچے بات مان لیں تو اپنی بات پوری نہیں کرتے، اس طرح بچوں کا اپنے والدین کی بات سے بھروسہ اٹھ جاتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ اب بھی وہی کرتے ہیں ، جو وہ چاہتے ہیں اور انسان کیا چاہتا ہے آسان کام کرنا اور آسان کام کرنے کی عادت سے کیا ہوتا ہے انسان وہ کام نہیں کرتا جو اسے عظیم انسان بنادیں ، بڑا آدمی بنا دیں، ذہین انسان بنا دیں۔
بچوں میں صبر اور کنٹرول پیدا کرنے کے لیے کیا کیا جائے ؟
عام طور پر بچوں کے پاس دو آپشن :
پہلے پڑھیں یا ٹی وی دیکھیں
پہلے جسمانی ورزش کریں یا موبائل فون استعمال کریں
موبائل پر تعلیمی مواد دیکھیں یا تفریحی
صحت بخش غذا کھانا کھایا جنک فوڈ
اگر بچہ پہلے ٹی وی دیکھنے کے بجائے پڑھے گا، موبائل پر تفریحی مواد دیکھنے کے بجائے تعلیمی مواد دیکھے گا وغیرہ تو اس میں آہستہ آہستہ کنٹرول برھنے لگے گا ۔ اس کے برعکس گھرانوں میں والدین بچوں کی ضد کے آگے فوراً ہتھیار ڈال دیتے ہیں، ان بچوں میں خود پر کنٹرول ختم ہوتا چلا جاتا ہے۔
بچوں میں ضبط پیدا کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم انہیں سمجھیں۔ انھیں سمجھنے کے دو آسان طریقے ہیں جنہیں مد نظر رکھتے ہوئے آپ اپنے بچے نظم و ضبط پیدا کرنے میں کرنے کے ساتھ اپنی بات منوا سکتے ہیں
پہلا طریقہ:
ان کی خوشی، خوف اور لالچ کو اچھی طرح سمجھنا
دوسرا طریقہ:
یہ جاننا ہے کہ عام طور پر بچے کھیل کی طرح پڑھائی یا والدین کے بتائے ہوئے کاموں میں دلچسپی کیوں نہیں لیتے؟
ان دونوں طریقوں کو جانے بغیر آپ بچوں کی اچھی طرح نہیں کر سکتے ، ان سے اپنی بات نہیں منواسکتے، ان میں اچھی عادتیں پیدا نہیں کر سکتے۔ بچے کی خوشی، خوف یا لالچ کو کیسے سمجھیں اور بچے جس طرح کھیل ہی کھیل میں دلچسپی لیتے ہیں، اسی طرح پڑھائی میں دلچسپی کیسے لیں ۔