سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی کو بلے کے نشان کی الاٹمنٹ کیخلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار دیدیا، تحریک انصاف بلے کے نشان پر انتخاب نہیں لڑ سکے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی شواہد نہیں ملے کہ پی ٹی آئی نے شفاف الیکشن کرائے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل منظور کرتے ہیں۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسے سنانے کیلئے ساڑھے 9 بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا تاہم تقریباً ساڑھے 11 بجے فیصلہ سنایا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، تحرک انصاف بلے کے نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکے گی۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ بادی النظر میں کوئی شواہد نہیں کہ پی ٹی آئی نے شفاف الیکشن کروائے، پی ٹی آئی کے پاس آئین کے مطابق ممبران کو نکالنے کا ثبوت نہیں، جمہوریت پارٹی کے اندر اور ملک میں بھی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا 27 دسمبر کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، ایسے شواہد نہیں ملے کہ الیکشن کیشن نے پی ٹی آئی کو ٹارگٹ کیا، تفصیلی فیصلہ ویب سائٹ پر اپ لوڈ کریں گے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پشاور ہائیکورٹ اپیل میں نہیں بتایا گیا کہ یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے زیر التواء ہے، الیکشن کمیشن 2021ء سے پی ٹی آئی کو شفاف الیکشن کا کہہ رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کے خلاف کئی شکایات ملیں، الیکشن کمیشن نے 27 دسمبر کو فیصلہ سنایا کہ الیکشن اس کے آئین کے مطابق نہیں، پی ٹی آئی کو کرونا کے باعث انٹرا پارٹی الیکشن پر وقت دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کی اپیل پر چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں۔ جس پر حامد خان بولے کہ الیکشن کمیشن کے بااختیار ہونے میں کوئی دو رائے نہیں، اختیارات مختلف حالات کے مطابق دیئے گئے ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ دوہرا معیار اپنایا، کمیشن نے کسی دوسری جماعت کے انتخابات کی اس طرح اسکروٹنی نہیں کی۔
چیف جسٹس بولے کہ جن کی اسکروٹنی نہیں ہوئی انہیں فریق بناتے اور الگ الگ کیس کرتے، ایک سیاسی جماعت کا وجود ہی الیکشن کمیشن نے ختم کردیا ہے؟۔ حامد خان نے بتایا کہ درخواست گزاروں نے خود دستاویزات لگائی ہیں دو جماعتوں میں بلامقابلہ انتخاب ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا ان جماعتوں کیخلاف کوئی شکایت آئی یا الیکشن کمیشن سوموٹو لیتا؟۔
وکیل پی ٹی آئی نے اپنے دلائل میں کہا کہ شکایت کنندہ تو ہمارے ملک میں مل ہی جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس وجیہہ الدین نے بھی انتخابات کرائے تھے بہت شور مچ گیا تھا۔ حامد خان نے جواب دیا کہ 12-2011ء کا پارٹی الیکشن میں نے کرایا تھا، وجیہہ الدین ٹربیونل میں تھے، انٹراپارٹی انتخابات اندرونی معاملہ ہے، الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا، الیکشن کمیشن نے آج ہی ایک جماعت پر صرف 20 ہزار روپے جرمانہ کیا، یہ امتیازی سلوک کی واضح مثال ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو الیکشن کمیشن 2021ء سے نوٹس دے رہا تھا، انہوں نے پوچھا کہ حامد خان صاحب کیا آپ خود الیکشن لڑ رہے ہیں، حامد خان نے جواب دیا خود الیکشن نہیں لڑرہا، میری اب عمر نہیں ایسی سرگرمی میں حصہ لوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اے این پی کو جرمانہ ہوا، پی ٹی آئی کو 2021ء میں جرمانہ نہیں ہوا، کل کو اے این پی کہہ سکتی ہے پی ٹی آئی کو جرمانہ نہیں کیا، ہمیں کیوں کردیا، ہم الیکشن کمیشن کا کنڈکٹ دیکھ رہے ہیں تو پارٹی کا کنڈکٹ بھی دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود مانا اکبر ایس بابر پارٹی کے بانی ممبر ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ بانی ممبر پارٹی کیخلاف کھڑا ہوجائے تو کیا اُس کو مان لیا جائے گا؟۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ فوزیہ قصوری بھی پارٹی میں ہیں یا چلی گئیں؟۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ آپ کے سامنے معاملہ یہ ہے انتخانی نشان ملنا چاہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب کل آپ کو اکبر ایس بابر کی طرح نکالا جائے تو کیا کریں گے؟، میں متعلقہ عدالت میں جاؤں گا، آپ کے سامنے وہ معاملہ چیلنج نہیں کیا گیا، پشاورہائیکورٹ میں استدعا تھی کمیشن پارٹی انتخابات میں مداخلت نہیں کرسکتا۔
حامد خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا الیکشن لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 14 درخواست گزار بھی یہی حق مانگ رہے ہیں۔ حامد خان نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن کیسے پارٹی کے اندرونی معاملے میں مداخلت کرسکتا ہے؟، الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے انتخابی نشان کو ٹارگٹ کررہا ہے، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو کیوں انتخابات سے باہر رکھنا چاہتا ہے؟، الیکشن کمیشن کروڑوں ووٹرز کو حق سے کیسے محروم کر سکتا ہے؟۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تو ڈرامائی الفاظ ہیں، اگر یہ 14 لوگ الیکشن لڑتے تو ووٹرز کا حق کیسے متاثر ہوتا؟۔ حامد خان نے کہا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر ہی نہیں ہیں تو الیکشن کیسے لڑتے؟، بانی رکن اپنی پارٹی کے خلاف کیسے عدالتوں میں جاچکا ہے؟، سپریم کورٹ نے اکبر ایس بابر کو شوکاز جاری کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شوکاز نوٹس دکھا دیں۔
حامد خان نے دلائل دیئے کہ اکبر ایس بابر کا پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں ہے، تین دن پہلے ایک بانی ممبر ایم کیو ایم میں شامل ہوا ہے، کیا بانی ممبر ہمیشہ ہی رکن رہ سکتا ہے؟، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں کیس انتخابی نشان کا ہے اندرونی طریقۂ کار کا نہیں۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے اسے دیکھنا ہوگا کہ اثرات کیا ہوں گے۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کرنے والے ممبران بھی عدالت میں پیش ہوگئے۔ پی ٹی آئی رکن یوسف خان نے کہا کہ بچپن سے پی ٹی آئی میں ہوں، مجھے الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا، میں دوحہ میں رکن بنا تھا، الیکشن کا ارادہ تھا پراسیس پتہ ہی نہیں چلا۔
خاتون رکن نورین فاروق نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا حصہ بنی اور خواتین ونگ کی مقامی صدر تھی، نعیم الحق کی سیکریٹری کے طور پر بھی فرائض انجام دیتی رہی، کسی اور جماعت کا حصہ نہیں بنی، الیکشن لڑنا چاہتی تھی لیکن موقع نہیں ملا، چاہتی تھی ہائی لائٹ ہو جاؤں، پی ٹی آئی چیئرمین مجھے پارٹی کا اثاثہ کہتے تھے۔
بانی رکن بلال اظہر رانا نے کہا کہ 25 اپریل 1996ء سے تحریک انصاف کا حصہ ہوں، میرے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بانی ارکان میں آپ کا نام نہیں ہے۔ حامد خان نے کہا کہ پارٹی کسی کو ممبر نہ مانے تو اُس کا کام ہے عدالت میں خود کو رکن ثابت کرے۔
اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن ایڈووکیٹ نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا 1999ء کا آئین ریکارڈ پر موجود ہے، پی ٹی آئی آئین ساز کمیٹی کے کئی ارکان غیرفعال ہیں یا چھوڑ چکے ہیں، آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین حامد خان صرف ابھی موجود ہیں، بانی ارکان میں عارف علوی اور اکبر ایس بابر بھی شامل ہیں۔