چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم نے آئین نہیں بنایا ہم آٸین کی تشریح کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان ’ بلے ‘ سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان ( ای سی پی ) کی درخواست پر سماعت ہوئی جو کہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ کی جانب سے کی گئی۔
الیکشن کمیشن نے جمعرات کے روز پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اس حوالے سے دائر درخواست میں موقف اختیار تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے ، استدعا ہے کہ فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جبکہ چیئرمین بیرسٹر گوہر خان ، چیف الیکشن کمشنر پارٹی نیازاللہ نیازی بھی عدالت عظمیٰ میں موجود رہے۔
سماعت کا احوال
سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے پشاور ہائیکورٹ کا حکمنامہ پیش کیا جس پر چیف جسٹس استفسار کیا کہ یہ مختصر حکمنامہ ہے کیا تفصلی فیصلہ آگیا ہے؟ جس پر پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے بتایا کہ امید ہے ایک ہفتے تک آ جاٸے گا۔
حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ مجھے تیاری کے لیے پیر تک وقت دیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 3 دن تک اگر کیس کو ملتوی کرنا ہے تو پھر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنا ہوگا، ہم تو کل اور پرسوں کام کرنے کے لیے تیار ہیں،
ہفتے اور اتوار کی چھٹی قربان کر کے انتخابات کے کیسز سن سکتے ہیں، صرف یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر اور قانون کے مطابق ہوں، معلوم ہے کہ اب انتخابات میں وقت کم ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ دلائل دینے کیلئے تیار ہیں تو ہم سنیں گے ، آپ نے کل دلائل دینے کا مؤقف اپنایا تب بھی ہم نے کہا ٹھیک ہے۔
حامد خان کا اعتراض
پی ٹی آئی وکیل نے اعتراض کیا کہ الیکشن کمیشن نے اس درخواست کو دائر کرنے کی وجوہات بھی بتانی ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، اگر ان پر اعتراض ہوگا تو پھر آپ پر بھی اعتراض ہوگا، اے پی ایم ایل کا مقدمہ براہ راست سپریم کورٹ آیا تھا، سوال اٹھے گاکہ آپ نے ہائیکورٹ میں اپیل کیسے کی۔
حامد خان نے کہا کہ متاثرہ فریق نے تو اپیل کرنا ہوتی ہے الیکشن کمیشن نے نہیں جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا الیکشن کمیشن اپنے حکم کا دفاع نہ کرے جبکہ حامد خان نے جواباً سوال کیا کہ کیا کوئی جج بھی اپنے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے ؟۔
وکیل الیکشن کمیشن مخدوم علی خان
وکیل الیکشن کمیشن مخدوم علی خان نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ تحریک انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات 2017 میں ہوئے تھے جس کے بعد پارٹی آئین کے مطابق تحریک انصاف 2022 میں پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھی لیکن الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا طریقہ کار کہاں درج ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ پہلے جمال انصاری بعد میں نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر بنے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کون تھے؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ کوئی اور ممبر تعینات نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے حامد خان نے سوال کیا کہ کیا یہ بات درست ہے؟ جس پر وکیل پی ٹی آئی نے تردید کی اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کی یہ بات درست نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کی دستاویزات کہاں ہیں؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ کیس کی تیاری کیلئے وقت اسی لئے مانگا تھا، الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت اور حق دعوی نہ ہونے پر بھی دلائل دوں گا، مناسب ہوگا پہلے حق دعویٰ اور قابل سماعت ہونے کا نکتہ سن لیں۔
ہم نے آئین نہیں بنایا ہم آٸین کی تشریح کرتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے آئین نہیں بنایا ہم آٸین کی تشریح کرتے ہیں، کیا کسی آٸینی باڈی کو اپنے فیصلے کا دفاع کرنے کا اختیار نہیں؟، انہوں نے حامد خان سے مکالمہ کیا کہ آپ ٹیکنیکل بنیادوں پر دلاٸل دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرنا اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ کوئی ادارہ اپنے فیصلے کے دفاع میں اپیل نہیں کر سکتا، کسٹم کلیکٹر بھی اپنے فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیلیں کرتے ہیں، قابل سماعت ہونے کا سوال تو پھر پی ٹی آئی کی ہائی کورٹ اپیل پر بھی آئے گا، الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اس کے فیصلے بے معنی ہوجائیں گے۔
حامد خان نے کہا کہ متاثرہ فریق اپیل کر سکتا ہے الیکشن کمیشن نہیں، کیا ڈسٹرکٹ جج خود اپنا فیصلہ کالعدم ہونے کے خلاف اپیل کر سکتا ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈسٹرکٹ جج عدلیہ کے ماتحت ہوتا ہے جبکہ الیکشن کمیشن الگ آئینی ادارہ ہے، کیا الیکشن کمیشن اپنے خلاف فیصلہ آنے پر سرینڈر کر دے؟۔