امریکی اور برطانوی فوج نے یمن کے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے کئے ہیں جس کے بعد فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ مشرق وسطیٰ میں پھیل گئی ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) نے کہا ہے کہ امریکی اور برطانیہ کی افواج نے آسٹریلیا، کینیڈا، ہالینڈ اور بحرین کی مدد سے حوثیوں کے ٹھکانوں پر مشترکہ حملے کیے تاکہ ان کی صلاحیت کو کم کیا جا سکے جبکہ یہ حملے ریڈار سسٹم، فضائی دفاعی تنصیبات، ہتھیاروں کے ذخیروں، ڈرونز اور میزائلوں کی لانچنگ سائٹس پر کئے گئے ہیں۔
سینٹ کام نے کہا کہ یمن کے حوثی جنگجوؤں کو بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر ان کے غیر قانونی اور خطرناک اقدامات کا جواب دینا ہوگا۔
سینٹرل کمانڈر جنرل مائیکل ایرک کریلا کا کہنا تھا کہ ہم حوثی عسکریت پسندوں کو بین الاقوامی تجارتی جہازوں پر غیر قانونی، اندھا دھند اور لاپرواہ حملوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جنہوں نے اب تک 55 ممالک کو متاثر کیا ہے جن میں امریکا سمیت سینکڑوں میرینرز کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا بھی شامل ہے۔
عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی اور برطانوی فوج کی جانب سے لڑاکا طیاروں، بحری جہازوں اور آبدوزوں کی مدد سے یمن کے دارالحکومت صنعا، بندرگاہی شہر حدیدہ اور شمالی شہر سعدہ میں درجن بھر سے زائد مقامات پر بمباری کی گئی ہے جبکہ حملوں میں ٹام ہاک میزائلوں کا بھی استعمال کیا گیا۔
امریکی فوج بحیرہ احمر میں بین الاقوامی بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے 12 ممالک کے بحری اتحاد کی قیادت کر رہی ہے۔
دوسری جانب یمن پر حملوں کے بعد انقلابی رہنما عبدالمالک بدرالدین الحوثی نے جارحیت کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے قوم کو پیغام دیا کہ دشمن کو میزائلوں اور ڈرونز کا نشانہ بنایا جائے۔
حوثیوں نے امریکی اور برطانوی حملوں کے رد عمل میں کہا کہ اب غزہ میں نسل کشی کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔
ایک سینئر حوثی اہلکار محمد البخیتی نے امریکا اور برطانیہ کو خبردار کیا کہ وہ یمن پر حملہ کرنے پر پچھتائیں گے کیونکہ یہ دونوں ممالک کی تاریخی حماقت ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹس میں البخیتی نے کہا کہ لندن اور واشنگٹن نے یمن پر حملے کر کے غلطی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا اب ایک انوکھی جنگ کا مشاہدہ کر رہی ہے جس میں صحیح اور غلط کی حمایت کرنے والوں کو واضح طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دنیا میں ہر فرد کو دو آپشنز کا سامنا ہے جن کے پاس کوئی تیسرا نہیں ہے، یا تو نسل کشی کے متاثرین کے ساتھ کھڑا ہونا یا اس کے مجرموں کے ساتھ کھڑا ہونا۔