سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کیخلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت انتخابات کے بعد تک ملتوی کردی،صدارتی ریفرنس کی تاریخ بعد میں مقرر کی جائے گی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کیخلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔بینچ میں جسٹس سردار طارق، جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحیٰ آفریدی،جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی لارجر بنچ کا حصہ تھے۔
سماعت کا احوال
دوران سماعت رضا ربانی روسٹرم پرآگئے،چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا استفسار کیا آپ بھی عدالتی معاون ہیں؟جس پر رضا ربانی نے کہا میں عدالتی معاون نہیں مگر بختاور اور آصفہ کا وکیل ہوں،کیس میں فریق بننےکی درخواست جمع کرائی ہے۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ٹھیک ہوگیا،ہم اس درخواست کو دیکھ لیتے ہیں۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نےدلائل کے آغاز میں کہا عدالت کے سامنے معاملہ اس کلنک کا ہے،بدقمستی سےذوالفقاربھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہو سکتی، عدالت کے سامنے سوال ذوالفقاربھٹو کی پھانسی پر عمل کا نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نےکہا اگر اس میں عدالت نے کچھ کیا توکیا ہرکیس میں کرنا ہوگا؟
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اسٹاف کو سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ انٹرویو کی کاپی ڈی سیل کرنے کی ہدایت
مخدوم علی خان نےکہا اس ریفرنس کی بنیاد سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو تھا۔چیف جسٹس نےریماکس میں کہا ہمیں ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے انٹرویو کی کاپی بھیجی ہے، انٹرویو شاید ہارڈ ڈسک میں ہے، سربمہر ہے ابھی کھولا نہیں گیا،چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اسٹاف کو انٹرویو کی کاپی ڈی سیل کرنے کی ہدایت کی۔
عدالتی معاون صلاح الدین احمد بھی عدالت میں پیش
دوران سماعت عدالتی معاون بیرسٹ صلاح الدین احمد بھی عدالت میں پیش ہوئے،انہوں نے کہامیری اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں،فریقین سے پوچھ لیں میری معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں،چیف جسٹس نے کہا اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر بڑا سنجیدہ معاملہ ہے۔فاروق ایچ نائیک نےکہا ذوالفقار بھٹو کے ورثاء کو بیرسٹر صلاح الدین پر اعتراض نہیں۔
آپ کی غیرجانبداری کا سب کو یقین ہے،چیف جسٹس
خواجہ حارث ایڈووکیٹ نےکہامیرے والدبھٹو کیس میں ڈی جی ایف ایس ایف مسعودمحمود کےوکیل تھے،اگر مجھ پر بھی کسی فریق کو کوئی اعتراض ہو تو بتا دیں،چیف جسٹس نے کہا آپ پرکسی کو اعتراض نہیں،آپ کی غیرجانبداری کا سب کو یقین ہے۔
رضا ربانی کا خواجہ حارث کے عدالتی معاون ہونے پر اعتراض
دوران سماعت رضا ربانی نے خواجہ حارث کے عدالتی معاون ہونے پر اعتراض کیا،انکے اعتراض پر خواجہ حارث رضاکارانہ الگ ہوگئے،
چیف جسٹس فائزعیسیٰ نےاحمد رضاقصوری کو بات کرنےسےروک دیا
احمد رضاقصوری روسٹرم پرآئے توچیف جسٹس فائزعیسیٰ نےاحمد رضاقصوری کو بات کرنےسےروک دیا،چیف جسٹس کا احمد رضا قصوری سےمکالمہ،کہا آپ اپنی نشست پربیٹھ جائیں،پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرلینے دیں،آپ کو ان کی کسی بات پر اعتراض ہو تو لکھ لیں۔
کیا ہمارے پاس یہ صدارتی ریفرنس نہ سننے کا آپشن ہے؟ چیف جسٹس کا استفسار
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا اس صدارتی ریفرنس میں 4 سوالات پوچھے گئے،جس پر چیف جسٹس نے کہاسب سے پہلے آپ آرٹیکل 186 پڑھیں جس کے تحت ریفرنس بھیجا گیا۔کیا ہمارے پاس یہ صدارتی ریفرنس نہ سننے کا آپشن ہے؟ چیف جسٹس کا استفسار۔
مخدوم علی خان بولے آئینی طور پر عدالت کے پاس رائے دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں،صدارتی ریفرنس کا سوال مبہم ہو تو عدالت کے پاس دوسرا آپشن ہوگا،
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہاعدالت سوال کو مبہم سمجھے تب بھی رائے دینا ہی آپشن ہوگا،مخدوم علی خان نے کہاعدالت کے سامنے یہ ایک منفرد کیس ہے۔
مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا
مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا،ذوالفقار بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کو رحم کی اپیل کی تھی،جبکہ خود ذوالفقاربھٹو نے رحم کی کوئی اپیل دائر نہیں کی تھی۔
آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے،چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نےریماکس میں کہا ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟کیا ہم نےصرف قانونی سوال کا جواب دینا ہے؟کیا ہم نےجسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی تحقیقات بھی کرانی ہیں؟،ایک انٹرویو پر فیصلےکا دوبارہ جائزہ لے کر رائے دےدیں؟عدالت ایک انٹرویو کی بنیادپر انکوائری کرائے؟انٹرویو ایک جج کا تھا، بینچ میں دیگرججز بھی تھے،ہم انٹرویو سےمتعلقہ لوگوں کو بلا کر انکوائری شروع کریں؟صرف ایک انٹرویو کی وڈیو دیکھ کرتو نہیں کہہ سکتےکہ یہ ہوا تھا۔ آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ بھی بتا دیں کہ ریفرنس میں آخر قانونی سوال پوچھا کیا گیا ہے؟
کمرہ عدالت میں سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو چلایا گیا
سابق چیف جسٹس کا افتخار احمد کو دیا گیا انٹرویو عدالت میں دکھایا گیا۔عدالت نے طوالت کے باعث سابق چیف جسٹس کا انٹرویو رکوا دیا۔ سارا انٹرویو نہیں سن سکتے، متعلقہ حصہ چلایا جائے۔
مخدوم علی خان بولے جسٹس نسیم حسن شاہ نےکتاب میں ساری چیزوں کی وضاحت کی،فاروق نائیک نےکہا میں نےجو ٹرانسکرپٹ دیا ہےاس میں متعلقہ حصہ شامل ہے،چیف جسٹس نےاستفسارکرتے ہوئے کہا اس ٹی وی والی ویڈیو سے بتائیں کتنےمنٹ پرمتعلقہ حصہ ہے؟فاروق ایچ نائیک نے کہا اس ویڈیو سے بتانا تو میرے لیےمشکل ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا جسٹس نسیم کی کتاب پہلے شائع ہوئی یا انٹرویو پہلے کا ہے؟جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا ،یہ کتاب کب شائع ہوئی تھی؟
عدالت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستی دیکھ کر ایک بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے,چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےریماکس دیتے ہوئےکہاعدالت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستی دیکھ کر ایک بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نےکہا واحد نکتہ یہی ہےکہ اُس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی، ہم کیسے اس مشق میں پڑیں کہ بینچ آزاد نہیں تھا؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نےکہا ایک جج کے انٹرویو سے یہ تاثر نہیں دیا جا سکتا کہ پوری عدلیہ آزاد نہیں تھی،دوسرے ججز بھی تھےجنہوں نے نوٹس لکھے اور اختلاف کیا۔
اس کیس میں ایک جج کی رائے کو نظر انداز نہیں کرسکتے،چیف جسٹس آف پاکستان
چیف جسٹس پاکستان نے کہابھٹو کیس میں بینچ کا تناسب ایسا تھا کہ ایک جج کی رائے بھی اہم ہے،ایک جج کےاکثریتی ووٹ کے تناسب سے ہی پھانسی دی گئی۔
احمد رضا قصوری نے استدعا کی کہ مجھے بلاول بھٹو کے جواب کی کاپی دے دیں، جس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نےکہا ہم سے آفس کا کام نہ کروائیں وہ آپ اسٹاف سے لے لیں۔
جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا متعلقہ حصہ نہ مل سکا
عدالت نے ٹی وی سےموصول انٹرویو کی کاپی فاروق نائیک کو دینے کی ہدایت کر دی،چیف جسٹس نے کہاآپ آئندہ سماعت پر اس انٹرویوسے متعلقہ حصہ ڈھونڈ کر لائیں،فاروق نائیک صاحب آپ نے ہمیں درست کاپی فراہم نہیں کی،یہ پریشر والی بات سے متعلقہ حصہ نہیں ہے۔
فاروق نائیک نےوضاحت دیتےہوئےکہا یوٹیوب سےانٹرویو ہٹادیاگیا تھا،ہمیں یہی حصہ ملا تھا،چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاآپ ٹی وی سے موصول ہونے والا انٹرویو لے جائیں۔عدالتی معاون مخدوم علی خان نےدلائل جاری رکھتےہوئےکہا یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کیا اس میں سپریم کورٹ قصور وار تھی؟پراسیکیوشن قصوروارتھی یا اس وقت کا مارشل لا ایڈمسٹریٹر؟
دھبہ صرف ایک فیملی پرنہیں کچھ اداروں پر بھی ہے،جسٹس مسرت
چیف جسٹس ریماکس دئیےریفرنس میں دوسراسوال عمومی نوعیت کا ہے، سوال ہےکہ کیا یہ فیصلہ اچھی نظیر ہے یا نہیں؟جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہمیں تاریخ درست کرنے کی ضرورت ہے،دھبہ صرف ایک فیملی پرنہیں کچھ اداروں پربھی ہے۔
چیف جسٹس نےمخدوم علی خان کو ہدایت دیتے ہوئےکہا آپ تحریری معروضات بھی جمع کرا دیں،اس کیس کو انتخابات کےبعد رکھ لیں۔عدالت نےکیس کی مزید سماعت فروری کےتیسرے ہفتےتک ملتوی کردی،صدارتی ریفرنس کی تاریخ بعدمیں مقررکی جائے گی۔