ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سیاسی حلقوں میں چہ منگوئیاں پیدا ہونا شروع ہوگئیں عوام بھی اس نازک صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں گے یا نہیں اس وقت سوشل میڈیا ہو یا پھر الیکٹرنک میڈیا ہر چھوٹی بڑی محافل میں ایک ہی موضوع زیر بحث ہے کہ کیا الیکشن 8 فروری کو ہی ہونگے؟ اگر بالفرض الیکشن نہیں ہوتے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے الیکشن رک ہی نہیں سکتے الیکشن 8 فروری کو ہر صورت میں ہی ہوں گےچاہے ہمیں ماضی قریب و بعید میں اس کی مثالیں ملتی ہیں لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے کیونکہ کوئی آئینی و قانونی راستہ نہیں بچا جس سے الیکشن کو ملتوی کیا جاسکے۔
’مینڈیٹری ان نیچر‘ اور ’ڈائریکٹری ان نیچر‘ قوانین کیا ہیں ؟
دنیا میں ’مینڈیٹری ان نیچر‘ اور ’ڈائریکٹری ان نیچر‘ قوانین میں فرق ہے پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 کے مطابق آئین میں اگر کسی کام کا وقت مقرر ہو اور وہ اس وقت پر نہ ہو سکے تو وہ کام خراب نہیں ہوتا بلکہ اس میں تاخیر ہو سکتی ہےاب یہاں پرقانون کو سمجھنے کی ضرورت ہےاگر قانون کے تحت کسی بھی کام کا وقت مقرر ہوگیا ہے اگر آپ وہ کام اتنے دنوں میں نہیں کریں گے تو وہ غیر قانونی ہو گا، غلط ہو گا اور اسے اگر نہ کیا تو اس میں سزا ملے گی تو اس کام کو اتنے دنوں میں کرنا ضروری ہوتا ہے تو وہ مینڈیٹری ان نیچر قوانین میں شمار ہوتا ہے رولز کے مطابق اگر کسی کام میں یہ بتایا جائے کہ آپ نے اتنے دنوں میں یہ کام کرنا ہے لیکن اس کی تاخیر میں سزا یا جرمانے کا ذکر نہ ہو تو وہ ڈائریکٹری ان نیچر ہوتا ہے تو 90 روز میں انتخابات ڈائریکٹری اِن نیچر ہے جس میں وہ کام ضرورتاً آگے پیچھے کر دیا جاتا ہے اور اس میں قباحت نہیں ہے اب پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 کے مطابق الیکشن لیٹ بھی ہوئے تو بھی یہ درست عمل ہو گا لیکن خلاف قانون نہیں ہوگا۔
کیا سینیٹ سے منظور کی گئی قرارداد الیکشن روکنےمیںمفید ثابت ہو گی یا پھر الیکشن کمیشن اس قرار داد کو جواز بنا کر الیکشن ملتوی کر سکتا ہے ؟
الیکشن کمیشن سینیٹ کی قراد داد کو جواز بنا کر پیش نہیں کر سکتا کیونکہ انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہےہاں اگر الیکشن کمیشن خود سے کوئی جواز بناتا ہے تو اس کیلئے وہ سینیٹ کی قرار داد میں جو وجوہات بتائی گئی ہیں ان کو انفرادی حیثیت میں خود کوئی فیصلہ لینے کے لیے استعمال کر سکتا ہے لیکن سینیٹ کی قرارداد کی از خود کوئی حیثیت نہیں ہےماضی میں سکیورٹی، موسم کی سختی اور سیلاب جیسی وجوہات سامنے آ چکی ہیں اور خود الیکشن کمیشن گزشتہ برس فنڈز کی عدم فراہمی اور انتظامات کے لیے وقت کی کمی جیسی وجوہات پیش کر کے انتخابات ملتوی کر چکا ہے اگر پھر بھی الیکشن کمیشن کوئی جواز بناتا ہے تو الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے گزرنا پڑے گا الیکشن کمیشن کے اپنے تجویز کردہ شیڈول پر سپریم کورٹ 8 فروری کو عام انتخابات کروانے کا فیصلہ دے چکی ہے جو کہ فیلڈ میں موجود ہے۔
اگر الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان یہ کہہ کر مستعفیٰ ہو جاتے ہیں کہ عام انتخابات سے وہ مطمئن نہیں ہیں تو کیا الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں؟
اگر ایسا ممکن ہو بھی جائے تب بھی الیکشن ملتوی نہیں ہوسکتے کیونکہ آرٹیکل 218 شق نمبر( 2B) کے مطابق الیکشن کمیشن کے چار ممبران ہونگے ہر صوبے سے ایک ممبر لیا جائے گاجن میں سے ہر ایک ایسا شخص ہو گا جو ہائی کورٹ کا جج رہا ہو یا ایک سینئر سرکاری ملازم رہا ہو یا پھر ٹیکنو کریٹ ہو اور اُس کی عمر پینسٹھ سال سے زیادہ نہ ہو اس کو آرٹیکل 213 کی شق (2A) اور (2B) میں کمشنر کی تقرری کے لیے فراہم کردہ طریقے سے صدر کی جانب سےمقرر کیا جائے گا۔
آرٹیکل 213 کی شق (2A) کیا ہے ؟
2 اے کے مطابق وزیر اعظم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے تین نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے تاکہ کسی ایک شخص پر اتفاق رائے قائم کیا جا سکے بشرطیکہ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف الگ الگ فہرستیں غور کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے جو کسی ایک نام کی تصدیق کر ے گی۔
213 کی شق (2B) کیا ہے ؟
2 بی کے مطابق اسپیکر کی طرف سے تشکیل دی جانے والی پارلیمانی کمیٹی ٹریژری بنچوں( یعنی حکومتی سائیڈ پر بیٹھنے والےارکان ) کے پچاس فیصد اور اپوزیشن جماعتوں کے پچاس فیصد ارکان پر مشتمل ہو گی جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں ان کی طاقت کی بنیاد پر متعلقہ پارلیمانی لیڈروں کی طرف سے نامزد کیے جائیں گے پارلیمانی کمیٹی کی کل تعداد بارہ ارکان پر مشتمل ہو جس میں سے ایک تہائی سینیٹ سے ہو گا۔
مزید یہ کہ جب قومی اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے اور چیف الیکشن کمشنر ( ارکان الیکشن کمیشن )کے عہدے پر کوئی جگہ خالی ہو جاتی ہے تو پارلیمانی کمیٹی کی کل رکنیت صرف سینیٹ کے اراکین پر مشتمل ہو گی اور اس شق کی مندرجہ بالا شقوں کا اطلاق ہو گا اگر چاروں ارکان چلے جاتے ہیں تب نئے الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری سینیٹ کمیٹی کر دیگی جس سے عام انتخابات میں کوئی تبدیل متوقع نہیں ہو سکے گی۔
اگر چیف الیکشن کمشنر سمیت چاروں ارکان مستعفیٰ ہو جاتے ہیں تب الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں؟
بالفرض اگر ایسی راہ ہموار ہو جاتی ہےاورچیف الیکشن کمشنر سمیت چاروں ارکان مستعفیٰ ہو جاتے ہیں تب بھی الیکشن ملتوی نہیں ہوسکتے قانونی طور پر الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد الیکشن ملتوی نہیں ہو سکتے ہاں چیف الیکشن کمشنر اور ارکان سمیت اگر مستعفیٰ ہو جاتے ہیں تب ڈائریکٹری ان نیچر قوانین لاگو ہوگا جو تاریخ سے دس بارہ دن کا فرق پڑسکتا ہے لیکن الیکشن ملتوی ہونے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ماضی میں 8ویں قومی اسمبلی اور 13ویں قومی اسمبلی کے عام انتخابات میں 90 دنوں سے زیادہ تاخیر کی گئی 12ویں قومی اسمبلی کے 10 اکتوبر 2002 کو ہونے والے انتخابات 91 دنوں میں ہوئے جبکہ 13 ویں قومی اسمبلی کے 18 فروری 2008 کو ہونے والے عام انتخابات 95 دنوں کے بعد ہوئےتھے لیکن ملتوی نہیں ہوئے تھے۔
عام انتخابات اگر ایک صورت میں ملتوی کئے جا سکتے ہیں ان کی ماضی میں مثالیں بھی ملتی ہیں بےنظیر بھٹو کی شہادت کے وقت الیکشن ملتوی ہوگئے تھے،1988 میں سیلاب کی وجہ سے الیکشن ملتوی ہوگئے تھےاگر کوئی ایمرجنسی لگ گئی تب الیکشن ملتوی کرنے کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔