پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان ’ بلے ‘ سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کر دیا گیا ہے جس کے بعد پارٹی سے انتخابی نشان ’ بلا ‘ ایک بار پھر سے چھن گیا۔
بدھ کے روز پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق کیس پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کرتے ہوئے حکم امتناع واپس لے لیا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کی بحالی کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی درخواست منظور کرتے ہوئے حکم امتناع واپس لیا۔
تحریک انصاف کا پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ جانے کا اعلان
پشاور ہائیکورٹ نے 26 دسمبر کو پی ٹی آئی کی درخواست پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا تھا جس پر الیکشن کمیشن نے انکو سنے بغیر عدالت کی جانب سے حکم امتناع جاری کرنے پر اعتراض کیا تھا۔
عدالت کا حکم امتناع واپس لینے کے بعد الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ بحال ہوگیا۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابی نشان بلا واپس لیا تھا۔
سماعت کا احوال
بدھ کے روز پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز خان نے عدالتی فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر سماعت کی جس کے دوران الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی کےقومی اورصوبائی اسمبلیوں کےامیدواروں کی تفصیلات سامنےآگئیں
جسٹس اعجاز نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپکے دلائل ہم نے سننے ہیں جس پر وکیل نے کہا کہ میں سماعت سننے کے لئے آیا ہوں جبکہ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سینئر وکیل قاضی انور آرہے ہیں ہم پھر دلائل پیش کریں گے، ہمیں تھوڑا وقت دیا جائے۔
بعدازاں، عدالت نے کیس کی سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کردی۔
وکیل پی ٹی آئی کے دلائل
مختصر وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی اور پی ٹی آئی کے وکیل ایڈوکیٹ قاضی انور نے بتایا کہ کل مشعال ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئیں، وہ اس کیس میں وکیل ہی نہیں، اس کیس میں بیرسٹر علی ظفر، بیرسٹر گوہر اور میں وکیل ہوں۔
قاضی انور نے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن یہ بات کر سکتا ہے کہ کیا ایک ہائیکورٹ فیڈریشن پر فیصلہ دے سکتا ہے جس پر جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا کام ہے قانون کی تشریح کرنا، ہم نے آپ سے سیکھا ہے، باہر کیا ہو رہا ہے وہ ہمارا کام نہیں۔
وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 26 دسمبر کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا، ویب سائٹ پر پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ ابھی تک جاری نہیں ہوا جس پر جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی طرف سے کوئی توہین عدالت کی درخواست نہیں۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 9جنوری تک کے پشاور حکم امتناع کو واپس لینے کی اپیل کی ہے، الیکشن کمیشن کو اس حکم امتناع کے بعد انتخابات انعقاد میں کیا مشکلات ہے جس پر جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت ابھی الیکشن کمیشن سے پوچھے گی۔
زرتاج گل کی راہداری ضمانت منظور، عدالت کا گرفتار نہ کرنیکا حکم
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا اعتراض ہے کہ انٹرا ریلیف تو پورا کیس بنتا ہے، الیکشن کمیشن کا ایک اعتراض یہ تھا کہ پی ٹی آئی نے پہلے انتخابی نشان فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا مگر وہ چھوڑ کر پھر آپ پشاور آ گئے۔
انٹرا پارٹی انتخاب پر اعتراض کرنیوالے پی ٹی آئی ممبر کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ممبر جہانگیر خان کے اعتراض کے بعد پی ٹی آئی نے انہیں پارٹی سے نکال دیا، جہانگیر نے پارٹی انتخابات کے طریقے کار پر اعتراض کیا تھا۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ آج ہم اس پربات کریں گے عدالت کیوں حکم امتناع کے فیصلے کو واپس لے۔
وکیل الیکشن کمیشن
وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ محمد حنیف عباسی کیس میں سپریم کورٹ کہہ چکی کہ الیکشن کمشین ایک خود مختار ادارہ ہے اور اختیارات استعمال کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن کا آئینی اور قانونی حق ہے کہ وہ اپنے خلاف فیصلے پر عدالت جائے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن نے ڈی لسٹ نہیں کیا صرف انتخابات کو کالعدم کیا، پی ٹی آئی والے کہہ رہے پارٹی کو ڈی لسٹ کیا تو یہ سپریم کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کرتے ہیں، کیس کے مرکزی فریق کو سنے بغیر عدالت نے پورا انٹر ریلیف دے دیا۔
پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف پروگرام کی حمایت سے دستبرداری کا عندیہ دیدیا
جسٹس اعجاز خان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا دائرہ اختیار اور درخواست قابل سماعت ہونے کا معاملہ دو رکنی بینچ دیکھے گا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ صرف پی ٹی آئی نہیں، دیگر 20 جماعتوں کے پارٹی انتخابات کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے سامنے ہے، 13 جنوری سے ہہلے ان تمام سیاسی جماعتوں کے فیصلے کرنے ہیں، پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع سے یہ تمام معاملات رک گئے ہیں، دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کا فائدہ ہو رہا ہے۔
فیصلہ
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا اور چند گھنٹوں بعد محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل منظور کی اور 22 دسمبر کا فیصلہ بحال کردیا۔
عدالت نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق کیس پر اپنا حکم امتناع واپس لے لیا جس سے پی ٹی آئی سے ایک بار پھر بلے کا نشان چھن گیا۔