سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی جبکہ سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم پارلیمان کو قانون سازی کرنے کا حکم نہیں دے سکتے۔
منگل کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کی جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کیا گیا۔
دوران سماعت وفاق کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں واپس لے لی گئیں۔
درخواست گزار خوشدل خان ملک کے دلائل
درخواست گزار خوشدل خان ملک نے دلائل میں کہا کہ آئین نے 1974ء میں لاپتہ افراد سے متعلق راستہ بتایا تھا، لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے اپنا کام نہیں کیا، وفاق بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا، عدالت حکم دے کہ مسئلہ پر قانون سازی کی جائے، قانون سازی ہونے سے عدالتوں پر بوجھ کم ہو گا، وزرات داخلہ نے جسٹس جاوید کی زیرنگرانی کمیشن بنایا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن دکھائیں؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لاپتہ افراد کے کیس میں درخواستوں پر تکنیکی اعتراضات نظرانداز کردیئے، کیا سپریم کورٹ پارلیمان کو ہدایت کرسکتی ہے کہ قانون سازی کریں؟ کوئی آئینی شق بتائیں جس کے تحت ایسا کریں؟۔
چیف جسٹس فائز عیسی کا ریمارکس دیئے کہ ہم پارلیمان کو قانون سازی کرنے کا حکم نہیں دے سکتے۔
درخواستگزار نے موقف اختیار کیا کہ میری درخواست پہلے فکس ہو کر ڈی لسٹ ہوگئی ، آپ کے چیمبر گیا ، درخواست بھی دی مگر کچھ نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو میرے چیمبر آنے کی ضرورت نہیں ، یہ غلط بات ہے ، آپ کی کوئی درخواست میرے پاس نہیں آئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو قانون سازی کا اختیار نہیں ، صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
اعتزاز احسن کے وکیل کے دلائل
سماعت کے دوران اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آئے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں جس کے جواب میں شعیب شاہین نے بتایا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا۔
شعیب شاہین نے موقف اختیار کیا کہ ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کئے گئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ اعتراضات خارج کرکے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا ، واپس آتے ہی درخواستیں مقرر کیں۔
کیا اعتزازاحسن اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرانا چاہتے ہیں ؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نکتہ اٹھایا، عدالت نے ہدایت کی کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ آپ اپنی استدعا بتائیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کمیشن کب کا ہے؟ تب کس کی حکومت تھی؟ جس پر شعیب شاہین نے بتایا کہ 2011ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران یہ کمیشن بنا تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اعتزازاحسن اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرانا چاہتے ہیں؟۔
شعیب شاہین نے کہا کہ کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ کتنے لوگ بازیاب ہوئے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اعتزازاحسن پیپلزپارٹی کی حکومت میں خود بھی وزیر رہے ہیں جس کے جواب میں شعیب شاہین نے بتایا کہ جب کمیشن بنا تب شاید وہ وزیر نہیں تھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس وقت بھی اعتزازاحسن پیپلزپارٹی میں ہیں؟ جس پر شعیب شاہین نے جواب دیا کہ جی اعتزاز احسن ابھی بھی پیپلزپارٹی میں ہیں۔
شیخ رشید ، صداقت عباسی اور دیگر کی گمشدگیوں کا معاملہ
دوران سماعت نے وکیل نے سابق وزیر شیخ رشید ، صداقت عباسی اور دیگر کی گمشدگیوں کا معاملہ بھی اٹھایا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ سب لوگ خود ہمارے سامنے درخواست گزار بنے ہیں؟ ، کیا یہ سب وہ ہیں جو خود وسائل نہیں رکھتے کہ عدالت آسکیں؟ آپ اس معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو اس کا یہ فورم نہیں، جو شخص دھرنا کیس میں نظرثانی لا سکتا ہے کیا اپنا کیس نہیں کرسکتا؟ کل شیخ رشید کہہ دیں انھیں کوئی مسئلہ نہیں شعیب شاہین کون ہیں میرا نام لینے والا؟۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ شیخ رشید خود کتنی بار وزیر رہ چکے؟ کیا آپ شیخ رشید کو معصوم لوگوں کی کیٹگری میں رکھیں گے؟، فرخ حبیب، عثمان ڈار اور صداقت عباسی یہ لوگ کون ہیں؟ کیا آپ اس بات پر رنجیدہ ہیں کہ یہ پی ٹی آئی چھوڑ گئے؟ کیا ہم ان لوگوں سے یہ کہیں کہ واپس پی ٹی آئی میں آجائیں؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یا تو کسی کو اعتزازاحسن کے سامنے اٹھایا گیا ہو تو وہ بات کریں، یا کوئی خود آکر کہے کہ مجھے اغواہ کیا گیا تھا تو ہم سنں، آپ ان کی جگہ کیسے بات کرسکتے ہیں؟ شعیب شاہین کیا آپ گواہ ہیں؟ جس پر شعیب شاہین نے جواب دیا کہ ’’ پورا پاکستان گواہ ہے ‘‘۔
جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایسے ڈائیلاگ نہ بولیں، آپ نے صرف ایک پارٹی کے لوگوں کا ذکرکیا ہے، یہ سب پارٹی چھوڑ گئے اس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں، ہم نے اس معاملے کو بہت سنجیدہ لینا چاہتے ہیں، جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کا معاملہ بھی ہم نے درخواست میں اٹھایا ہے۔
سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی اجازت نہیں دے سکتے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی مقاصد کے لئے عدالت کو استعمال نہیں ہونے دیں گے، اگر آپ ہمارا مذاق اڑائیں گے تو ہم اسکی اجازت نہیں دیں گے، انہوں نے استفسار کیا کہ محمد خان بھٹی کون ہے ؟ اور آپ سے اس کا کیا تعلق ہے؟ جس پر شعیب شاہین نے جواب دیا کہ پہلے یہ بھی لاپتہ تھے، اب پیش کردیئے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کس منہ سے یہ بات کررہے ہیں ؟ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی اجازت نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بل اگر غائب ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے بہت بڑی سازش ہوئی، یہ تو لاپتہ افراد سے لاپتہ بل کا کیس بن گیا ہے، ہمیں وہ بل دکھا تو دیں جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ وہ بل میرے پاس نہیں ہے جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اس بل کا یہاں سے پرنٹ نکلوا لیا ہے، یہ بل تو شیخ رشید احمد کا تھا۔
شعیب شاہین نے کہا کہ شیریں مزاری نے اس معاملے پر بل پیش کیا جو غاٸب ہو گیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس معاملے پر شیریں مزاری نے استعفی دیا؟ مسلٸہ یہ ہے کہ جب عہدے پر ہوتے ہیں تو ذمہ داری کوٸی نہیں اٹھاتا، کیا یہ بل سینیٹ سے غاٸب ہوا تھا؟ چیٸرمین سینیٹ کون ہے؟ کس کے ووٹ سے وہ بنے تھے؟۔
شعیب شاہین نے بتایا کہ صادق سنجرانی سینیٹرز کے ووٹ سے چیٸرمین سینیٹ بنے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نام لیں کہ کس پارٹی کے ووٹ سے بنے تھے، وکیل نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آٸی کے اتحاد سے چیٸرمین سینیٹ بنے تھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی پارٹی کے ووٹ سے بنے چیٸرمین نے آپ کا بل گم کردیا؟ کیا آپ نے اس پر چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی درخواست کی؟ آپ نے چیٸرمین سینیٹ پر ایک سنجیدہ الزام لگایا ہے جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ میں نے درخواست میں اس معاملے پر کوٸی استدعا نہیں کی، یہ سارا واقعہ ایک بیک گراؤنڈ کے طور پر لکھا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بل غاٸب ہونے کا ذکر کیا ہے تو پھر صادق سنجرانی کو فریق تو بنائیں۔
عمران ریاض کون ہے ؟ چیف جسٹس کا استفسار
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے عمران ریاض کا ذکر بھی کیا ہے، یہ کون ہیں؟ کیا عمران ریاض اب بھی لاپتہ ہیں؟ جس پر شعیب شاہین نے بتایا کہ اب لاپتہ نہیں ہیں مگر جب وہ واپس آئے تو حالت غیرتھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمران ریاض اثرورسوخ والے نہیں؟ کیا مطیع اللہ جان اغوا نہیں ہوئے تھے؟ آپ مطیع اللہ جان اور اسد طور کا نام شامل کیوں نہیں کرتے؟ آپ ان لوگوں کا نام لے رہے ہیں جو اس بات پر کھڑے ہی نہیں کہ وہ اغواء ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مطیع اللہ جان اور اسد طور نے تو نہیں کہا کہ وہ شمالی علاقہ جات گئے جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ میں مطیع اللہ جان کے کیس میں پیش ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نے ایک بینچ میں صحافیوں کے کیس کا نوٹس لیا تھا، کس کی حکومت تھی جس نے آکر کہا کہ آپ یہ نوٹس نہیں لے سکتے؟ جس پر شعیب شاہین نے جواب دیا کہ میں یہاں بطور پی ٹی آئی کارکن نہیں آیا، میں پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کی وکالت کررہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہ سب کچھ ہونے سے پہلے اس وقت نوٹس لیکر کیس چلا رہے تھے، اس وقت وہ کیس نہیں چلنے دیا گیا تھا، آپ بغیر کسی تفریق کے سب صحافیوں کے نام لکھ دیتے جس پر وکیل نے کہا کہ 2023ء میں بات کروں گا تو انہی کا ذکر کروں گا جنھیں اٹھایا جارہا ہے، میں ان کا ذکر نہیں کروں گا جن کو پروٹوکول مل رہا ہے۔
بلوچ طباء کے احتجاج کا معاملہ
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آپ کیا پک اینڈ چوز کررہے ہیں؟ جس پر شعیب شاہین نے 2014ء سے لاپتہ بلوچ شہری کا معاملہ اٹھایا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابھی جو بلوچ طلباء کا احتجاج چل رہا ہے اس کا آپ کی پٹیشن میں ذکر نہیں جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ بلوچ طلبہ والے معاملے پر متفرق درخواست دے دیتا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کوئی فہرست لگائی کہ کون کب سے لاپتہ ہے؟ آپ نے کہا وزیراعظم نے 50لوگوں کے گم ہونے کی بات کی وہ غلط ہے، آپ تاریخوں کے ساتھ فہرست دیتے تو ہم دیکھ لیتے تب کس کی حکومت تھی،ہو سکتا ہے اس میں آپ کی حکومت بھی آجاتی۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ لاپتہ افراد کمیشن کا سربراہ کون ہے؟ جس پر شعیب شاہین نے بتایا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس کمیشن کے سربراہ ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ جاوید اقبال سے مطمئن ہیں یا تبدیل کرانا چاہتے ہیں؟، شعیب شاہین نے بتایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ایک عالمی میعار کا نیا کمیشن بنے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی حکومت نے جاوید اقبال کو تبدیل کیا تھا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان ہم سب کا ہے ملکر ہی چیزیں ٹھیک کرنا ہوں گی ، ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے سے نفرتیں کم نہیں ہوتیں ، یہ بہت کر لیا، ایک وزیر اپنے بل کی حفاظت نہیں کرسکتی ، لاپتہ افراد کی حفاظت کیسے کریں گی؟۔
صادق سنجرانی کے پہلے انتخاب اور عدم اعتماد کے تذکرے
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدم اعتماد ناکام کیسے ہوئی تھی ؟ کیا ووٹ بھی لاپتہ ہوگئے تھے؟ کیا یہ کیس لاپتہ افراد کا ہی ہے یا لاپتہ چیزیں بھی آجائیں گی؟ بل بھی لاپتہ ہو گیا اور پھر ووٹ بھی لاپتہ ہو گئے، آپ نے اسی وقت اپنا چیئرمین سینیٹ بھی بنوا لیا تھا جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ ہمارا چیئرمین نہیں ہے، جن کا ہے اللہ انہیں نصیب کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نگران حکومت کو صرف ان کے دور میں گم افراد کا ذمہ دار نہیں کہہ سکتے، ہم لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتے ہیں، لاپتہ میں کئی وہ لوگ بھی ہیں جو جہادی تنظیموں کے ساتھ چلے جاتے ہیں، یہ بھی دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ تنظیمیں جوائن کر لو، آپ کو پتہ ہے لوگ قتل ہوئے ہیں، جج بھی قتل ہوئے ہیں، آپ کو پتہ ہے 2 عدالتوں کے چیف جسٹس نور محمد مسکان زئی بھی قتل ہوئے۔
سماعت کل تک ملتوی
چیف جسٹس نے کی مزید سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کل اٹارنی جنرل سے بھی کہیں عدالت میں ہوں، یہ مسئلہ تب حل ہو گا جب ملکر کریں گے اور ذمہ داری بھی سب لیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شعیب شاہین سے مکالمہ کیا کہ آپ کی درخواست میں سیاست چھلک رہی ہے جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ جن لوگوں کا ذکر کیا ہے وہ انسان بھی ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر آپ بلاتفریق سب کا زکر کرتے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ ہم نے 2023ء میں لاپتہ ہوئے لوگوں کا بلاتفریق معاملہ اٹھایا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے اب نوٹس لیا ہے تو مسئلے کا ایک ہی بار حل نکالیں گے، آیئے پاکستان کو بہتر اور محفوظ بنائیں، آمنہ جنجوعہ سے بھی مشاورت کرکے کل بتائیں عدالت کیا کر سکتی ہے؟۔
شعیب شاہین نے کہا کہ کل ہمارا لیول پلیئنگ فیلڈ والا کیس بھی لگا ہوا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کل ہمیں چھوڑکر چلے گئے تھے اس کے باوجود آپ کا کیس لگایا۔