پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے رہنما ندیم افضل چن کا کہنا ہے کہ نئے سال 2024 کا پہلا دماغی ٹیسٹ مسلم لیگ ( ن ) کے رہنما عطا تارڑ کا کروایا جائے۔
عام انتخابات 2023 کی تیاریاں جاری ہیں اور اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم کا آغاز بھی کردیا گیا ہے جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے اپنے حلقوں میں عوامی رابطہ مہم کے تحت کارنر میٹنگز سے خطاب کرتے نظر آرہے ہیں۔
بعض سیاسی رہنماؤں کی جانب سے انتخابی لڑائی سوشل میڈیا پر بھی لڑی جا رہی ہے اور ایک دوسرے کے الزامات کا جواب دینے کے لئے اپنے اپنے آفیشل ہینڈلز کا سہارا لیا جا رہا ہے جس کی ایک مثال پی پی رہنما ندیم افضل چن کی حالیہ ایکس پوسٹ کی صورت میں بھی ملتی ہے جنہوں نے اپنی حریف پارٹی ن لیگ کے رہنما عطا تارڑ کے ایک بیان پر رد عمل دیا ہے۔
اتوار کے روز لاہور میں منعقدہ ایک وکررز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عطاء تارڑ نے پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ’’ پیپلزپارٹی نے کراچی میں کون سا ایسا ترقیاتی کام کیا ہے کہ اٹھ کر لاہور آ گئے ہیں ، ان کی لاہور کا رخ کرنے کی ہمت کیسے ہوئی، بلاول کو بتانا چاہتے ہیں کہ لاہور کل بھی نوازشریف کا قلعہ تھا اور آج بھی ہے ‘‘۔
عطاء تارڑ کے خطاب کا ایک جملہ ’’ پیپلز پارٹی کو تو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا، ہماری قیادت نے قربانیاں دی ہیں ‘‘ ایک ایکس صارف نے پوسٹ کیا جس پر ندیم افضل چن کی جانب سے دلچسپ رد عمل سامنے آیا۔
اپنے ردعمل میں ندیم افضل چن نے مطالبہ کیا کہ ’’ نئے سال کا پہلا دماغی ٹیسٹ تارڑ صاحب کا کروائیں ‘‘۔
نئے سال کا پہلا دماغی ٹیسٹ تارڑ صاحب کا کروایں۔ https://t.co/Pjz7yS62tI
— Nadeem Afzal Chan (@NadeemAfzalChan) January 1, 2024
سماء ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے پی پی رہنما نے اپنے بیان کی وضاحت میں کہا کہ ’’ عطاء تارڑ گھکڑ منڈی سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن پارٹی کی جانب سے انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا گیا اور لیگی رہنما محمود بشیر ورک کو ٹکٹ دے دیا۔
ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ شہباز شریف عطاء تارڑ کو ٹکٹ دینا چاہتے تھے لیکن نواز شریف اور مریم نواز نے مخالفت کی جس کے بعد ’’ تارڑ صاحب ‘‘ کو لاہور سے بلاول بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑنا پڑ رہا ہے ‘‘۔
پی پی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ ’’ تارڑ صاحب اپنی پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے کا غصہ بلاول بھٹو پر تنقید کرکے نکالنا چاہتے ہیں ‘‘۔