پاکستان کے اعلی ایوانوں میں ہماری نمائندگی ہوتے ہوتے کئی برس گزر جائیں گے ۔مذہبی اقلیتوں کی طرح ہماری بھی مخصوص نشست ہونی چاہیے ۔یہ کہنا تھا گزشتہ انتخابات میں حصہ لینے والے خواجہ سرا ندیم الظفر خان کا۔
کیا خواجہ سرا کے لئے مخصوص نشست ہونی چاہیے اس بارے میں سابق چئیرمین الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ’خواجہ سرا پاکستان کے شہری ہیں اور انکو الیکشن میں حصہ لینے سے کوئی نہیں روک سکتا ،وہ الیکشن میں حصہ بھی لیں اور اپنی پارٹی بھی بنائیں خواجہ سرا کے شناختی کارڈ اور ووٹ بھی اب رجسٹرڈ ہیں۔ جہاں تک سوال ہے مخصوص نشست کا تو سیاسی جماعتیں اس میں پیش رفت کریں الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔آئندہ انتخاب میں اگر کسی خواجہ سرا امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوتے ہیں تو وہائی کورٹ میں اپیل کریں ہائی کورٹ ہی اس پر فیصلہ دے سکتی ہے‘۔
مسلم لیگ ن کے سابق رکن قومی اسمبلی اور منشور کمیٹی کے رکن کھیل داس کوہستانی کہتے ہیں کہ’بالکل اسی طرح جیسے سندھ اسمبلی نے خواجہ سرا کے لئے بلدیاتی انتخابات میں مخصوص نشست کےلئے قانون سازی کی ہے ،انہیں قومی و صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر نمائندگی کا حق دیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر میں اس ایشو کو ضرور اٹھاؤں گا اور سب سے پہلےمیں اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کے سامنے قانون سازی کی بات کروں گا‘۔
صوبے پنجاب کے شہر اوکاڑہ سے خواجہ سرا امیدوار محمد ارسلان عرف ( نایاب علی) کہتی ہیں کہ جب تک آپ قوانین پر اثر انداز نہیں ہو جاتے، آپ ان کے غلام ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف گلالئی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والے علی ان چند خواجہ سراؤں میں سے ایک ہیں جو ایک سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کراچی میونسپل کارپوریشن میں پہلی خواجہ سرا شہزادی رائے مخصوص نشست پر نمائندگی کر رہی ہیں انکا کہناہے کہ ’ہم دو سال سے کراچی میں ’سندھ مورت مارچ‘ میں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواجہ سرا کی مخصوص نشست ہو چاہیے ایک ہی کیوں نہ ہو۔ہماری یہ ڈیمانڈ ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے‘۔
2018کے انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستو ں پر 4خواجہ سراہوں نے حصہ لیا مگر افسوس کی بات ہے ان چاروں خواجہ سراہوں کی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئی تھی۔ محمد ارسلان عرف نایاب علی نے این اے 142اوکاڑہ سے تحریک انصاف گلالئی کے ٹکٹ کو 197ووٹ حاصل کئے۔این اے 53اسلام آبا د کی نشست پر ندیم الظفر خان عرف (ندیم کشش )نے بطور آزاد امیدوار 22ووٹ حاصل کر سکے۔پی پی 26 جہلم سے مجاہد محمود بابر نے تحریک انصاف گلالئی کے ٹکٹ پر 220ووٹ حاصل کئے تھے۔خیبر پختو انخو پی کے 31مانسہرہ سے عالم گیر خان عرف ماریہ نے بطور آزاد امیدوار 536ووٹ حاصل کئے ۔ عالمگیر عرف ماریہ نے حلقے میں 7دوسرے امیدواروں سے زیادہ ووٹ لے لئے اس بات پر سوشل میڈیا پر عالمگیر خان کو بہت پذیرائی بھی ملی جب اس حوالے سے ان سے بات کی تو انہوں نے کہا میرے لئے یہی اعزاز کافی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں روایتی طور پر خواجہ سراؤں کی زندگیوں کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ انہیں معاشرے میں علاقوں میں مقامی طور پر جانا جاتا ہے ۔ خواجہ سرا ہمارے معاشرے میں کہیں ، احترام اور کہیں شک کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں ۔
جو لوگ خواجہ سراہوں کے بارے میں اچھے خیالات کا سوچتے ہیں ان کی نظر میں صوفیانہ طاقتیں ہیں یہ وجہ ہے بہت سے لوگ ان کی بد دعا سے ڈرتے ہیں لیکن انہیں بچے کی پیدائش اور شادی کی تقریبات میں برکت دینے کی دعوت دیتے ہیں۔خواجہ سر اہوں کا ووٹ دینے کا حق اور جنرل الیکشن کا حصہ بننے کے کےلئے سب سے اہم شناختی کارڈ کا ہونا لازمی ہوتا ہے ۔یہ حق 2009 میں سپریم کورٹ نے دیا،سپریم کورٹ کے فیصلے میں باضابطہ طور پر تیسری جنس کے طور پر شناخت کرنے والوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ۔ قانونی طور پر 2011 خواجہ سراؤں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعدوشمار کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں ملک بھر سے قریباً3500 سے 3700خواجہ سرا ووٹرز اپنا حق رائے دہی کا استعمال کر ینگے۔ 2018 کے انتخابات کی نسبت رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد میں 11سو 16 کا اضافہ ہوا،اس وقت سب سے زیادہ رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز صوبہ پنجاب میں ہیں جن کی تعداد 2200 ہے جبکہ 2018 کے انتخابات میں پنجاب میں رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد 1356تھی۔ 133 خواجہ سراء ووٹرز خیبر پختونخوا سے رجسٹرڈ ہیں۔
کمیشن کے مطابق ووٹر زجسٹریشن کے لئے فارم اکیس میں خواجہ سرا کے لئے الگ خانہ موجود ہے۔ یہ فارم کیا ہے اور خواجہ سرائوں کا الگ خانہ کیوں ہے؟ کیا مرد اور خواتین کا خانہ بھی الگ الگ ہوتا ہے؟ اُوپر بتایا گیا کہ یہ فام ووٹر رجسٹریشن کے لے ہے کہ ایک بندہ مرو، عورت یا خواجہ سراء اپنا جنس لکھ سکتاہے۔
2018 کے انتخابات میں کراچی میں کے ضلع جنوبی میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے والی ٹرانس جینڈر ہیر علوی کا کہناہے کہ مجھے پولنگ اسٹیشن میں ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔انکے مطابق میں نے خواتین کا لباس پہنا ہوا تھا جبکہ میرے شناختی کارڈ پر مرد ٹرانس جینڈر لکھا ہوا تھا ۔شناختی کارڈ کے مطابق ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے مردانہ لائن میں کھڑا ہوناتھا۔جب میں مردانہ لائن میں کھڑی ہوئی تو مجھے ہراساں کیا گیا۔ان سب کے باوجود میں نے ووٹ کاسٹ کیا۔یہ تو پولنگ اسٹیشن کے باہر کا معاملہ تھا اندر تو اس سے بھی عجیب معاملہ تھا ۔’پریزائڈنگ آفیسر نے مجھے کہا کہ تم لوگ یہاں کیا کرنے آ گئے ہو عجیب ہی تماشا لگایا ہوا ہے‘۔میں حال ہی میں نوکری کے سلسلے میں کراچی سے لاہور منتقل ہو گئی ہوں اور آئندہ انتخاب میں ووٹ لاہور میں ہی کاسٹ کروں گی۔
2018کے انتخابات کا حصہ بننے کا تجربہ کیسا رہا؟
ندیم کشش کا کہنا ہے کہ ہم نے کوشش کی آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا مگر نہ معاشرے نے ہمیں سپورٹ کیا اور نہ ہی سیاسی جماعتوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی۔ الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشن میں خواجہ سرا کی ایک الگ لائن تھی۔اس کے علاوہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خواجہ سراobserver تھے مگر یہاں ایک مسئلہ تھا کہ جب ووٹوں کی گنتی ہوئی تو ہمارا کوئی نمائندہ اندر موجود نہیں تھا جو کہ بالکل غلط ہوا۔مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عالم گیر خان عرف ماریہ کہنا ہے کہ میرا الیکشن میں حصہ لینے کا تجربہ بہت زبردست ہے لوگوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا ہمارے حلقے میں 10سے 15خواجہ سراہوں کا شناختی کارڈ تھا جبکہ مجھے ووٹ عام عوام نے بھی دیا جس سے میں بہت خوش ہوں ۔خواجہ سرا لبنیٰ لعل نے 2013کے انتخابات میں بھی بطور آزاد امیدوار کے حصہ لیا تھا۔2013 کے الیکشن میں بطور آزاد امیدوار انہوں زیادہ 682ووٹ حاصل کئے جبکہ 2018 کے تحریک انصاف عائشہ گلا لئی پارٹی کا ٹکٹ ہونےکے باوجود انہیں 220ووٹ ملے تھے۔یہ کہتی ہیں کہ لوگ مجھ سے ناراض ہو گئے تھے وہ سمجھے کے مجھے تحریک انصاف کا ٹکٹ ملا جب انہیں پتی چلا کہ تحریک انصاف عائشہ گلا لئی کا ٹکٹ ہے تو مجھے رات کو فون آئےکہ یہ تم نےکیا گیا۔میں خوش تھی کہ کسی سیاسی جماعت نے تو ٹکٹ دیا۔
کیا آئندہ انتخاب کا پھر سےحصہ بنے گئے؟
ندیم الظفر خان کا کہنا ہے کہ 2024کے انتخابات کے لئے میں تیار ہوں ۔مگر میں تو چاہتا ہوں کہ مذہبی اقلیتوں کی طرح ہماری بھی مخصوص نشست ہو ۔خواجہ سرا ملک بھر میں موجود ہیں اور پسماندہ علاقوں ےس تعلق رکھنے والے خواجہ سراہوں کو پہلے تو شناختی کارڈر کے اجرا کا مسئلہ رہتا ہے ووٹ کاسٹ کرنا تو دور کی بات ہے۔دوسرا یہ کہ اگر ہم انتخاب کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو ہمیں سیاسی جماعتوں اور ساتھ مذہبی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہے ۔پیپلزپارٹی نے کراچی میں خواجہ سرا کو بلدیاتی انتخاب میں بھرپور مدد کی اور انہیں عہدہ بھی دیا ۔آئندہ انتخاب میں حصہ ضرور لوں گی عالم گیر خان عرف ماریہ نے مزید کہا اس بار الیکشن میں بطور آزاد امیدوار حصہ لوں گی اور گزشتہ الیکشن میں ملنے والے ووٹوں سے زیادہ ووٹ حاصل کروں گی۔ مجاہد محمود عرف(لبنیٰ لعل) پی پی 26جہلم سے آئندہ انتخابات آئندہ انتخابات 2024میں بھی حصہ لینے کے لئے تیار ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ میں تو لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھنے میں بہت خوشی محسوس کرتی ہوں ۔اس لئے جب میں اپنی انتخابی مہم چلاتی ہوں تو لوگوں کی طرف سے بہت اچھا رسپونس آتا ہے۔میرے حلقے میں 30کے قریب خواجہ سرا کے ووٹ موجود ہیں اور ان سب نے مجھے ووٹ کاسٹ کیا تھا۔نایاب علی نے اسلام آباد کے دونوں حلقوں این اے 47اور این اے 46سے کاغذات نامزدگی بھی جمع کروا ئے ہیں۔خیبر پختو نخوا میں پہلی بار خواجہ سرا انتخابات کا حصہ بن رہی ہیں ۔خواجہ سرا صوبیا خان نے صوبائی حلقہ پی کےپشاور 81 سے کاغذات نامزدگی جمع کروا ئے ہیں ۔ شہزدای رائے کہتی ہیں کہ ’شریعت کورٹ کے فیصلے کے بعد انہوں نے نادرا پاکستان کو خواجہ سرا کے x شناختی کارڈ بند کر دئے تھے۔اس وقت ملک بھر میں تمام خواجہ سرا شناختی کارڈر بنا رہے تھے اور انکا ووٹ رجسٹرڈ ہو رہا تھا۔یہ عمل نہ روکتا تو خواجہ سرا کے ملک بھر میں ووٹ رجسٹرڈ ہوتے‘۔
آزاد خواجہ سرا پارٹی کیا ہے ؟
ستمبر 2020 میں ندیم کشش نے ایک سیاسی جماعت ’آزاد خواجہ سر ا‘ کی بنیاد رکھی۔ندیم کشش خود اس کے سربراہ ہیں مگر یہ پارٹی رجسٹرڈ نہ ہوسکی۔اس بارے میں ندیم کشش کا کہنا ہے کہ میں نے اسلام آباد پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں اپنی سیاسی جماعت کا اعلان کیا مگر رقم نہ ہونے کی وجہ سے انکی پارٹی رجسٹرڈ نہ ہو سکی۔ندیم کشش کا کہنا ہے کہ’ پارٹی رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ اکسی فیس ہے جو کہ ہم ادا نہیں کر پائے‘۔ اگر میں پارٹی کی فیس جمع کروا دیتی تو ہماری آج میری پارٹی بھی رجسٹرڈ ہوتی اور خواجہ سرا اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابی عمل کا حصہ بنتے۔
انہوں نے پارٹی کے منشور کے بارے میں بتایا کہ میں نے پریس کلب میں کہا تھا کہ ’ آزاد خواجہ سرا ‘پارٹی میں عوام لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں یہ صرف خواجہ سرا کی ہی پارٹی نہیں ،خواجہ سر پہلے ہی معاشرے میں الگ ہیں عام لوگ سے میں شامل ہونگے تو ہمیں بھی حوصلہ ملے گا کہ ہم اس پارٹی کا حصہ ہیں۔ندیم کشش کا کہنا ہے اس پارٹی میں کوئی گورو اور چیلا نہیں بلکہ اس پارٹی میں سب برابر ہیں ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق پارٹی ایکٹ 2002 کے تحت پارٹی کی رجسٹریشن کے لئے 25فنڈنگ ممبرز ہونے چاہیے۔21سال سے زیادہ عمر اور صرف پاکستان کی شہریت ہونی چاہیے۔ پارٹی کا مشور ،نام اور وہ علامت (نشان) وہ ہونا چاہیے جو پہلے نہ استعمال ہوا ہو۔نئی پارٹی کی رجسٹریشن فیس 1لاکھ جمع کروانی ہوگی۔
خواتین کی جنرل نشستوں پر ٹکٹ کو کوٹہ کی بات کریں تو الیکشن ایکٹ2017 کے سیکشن نمبر206کے مطابق تمام سیاسی جماعتیں کل امیدوارں میں سے 5فیصد ٹکٹیں خواتین کو دے گی۔قومی اسمبلی کی 266نشستوں پر اگر ایک سیاسی جماعت 266امیدوار کو ٹکٹ دیتی ہے تو وہ سیاسی جماعت 13.3ٹکٹیں خواتین میں تقسیم کرے گی۔خواجہ سرا کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی اگر ایسی کوئی قانون سازی ہو جائے تو یہ طبقہ بھی بڑے ایوانوں میں بیٹھ سکے گا۔